وزیراعظم عمران خان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے ہم ریکارڈ 6 ہزار ارب ٹیکس جمع کریں گے۔

اسلام آباد میں ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریک سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتےہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کے بارےمیں مجھے شک پڑانا شروع ہوگیا تھا کہ شاید ہمارے 5 برسوں میں مکمل نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس اصلاحات کی بدولت پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے نئے دور کا آغاز

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اور حکومتیں 2008 سے اس نظام پر کام کر رہی تھیں لیکن اب 2021 میں جاکر اس کا افتتاح ہوگیا ہے اور آج سے شوگر انڈسٹری پر یہ نظام لاگو ہوگا اور پھر سیمینٹ، فرٹیلائزر اور سریا سمیت دیگر شعبوں میں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم ہے، جس کے دورس اثرات ہیں، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنا ملک چلانے کے لیے اتنا پیسہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ہاں ٹیکس کلچر کبھی نہیں بنا اور ٹیکس چوری کرنا لوگ بری چیز نہیں سمجھتے تھے، جس کی ایک وجہ نوآبادیاتی نظام تھا کیونکہ باہر سے لوگ آکر پیسہ لے کر جاتے تھے جبکہ جو سمجھتے ہیں کہ یہ ٹیکس ہمارے لیے استعمال ہوگا تو ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ آزادی کے بعد ہماری حکمران اشرافیہ نے ٹیکس نظام پنپنے نہیں دیا اس لیے کہ لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں پر ان کا اپنا الگ لائف اسٹائل تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ ان کو ہمارا کوئی درد نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں یہ کلچر کبھی نہیں آنے دیتے تھے، انگلینڈ کی سالانہ آمدنی پاکستان کے مقابلے میں 50 گنا زیادہ ہے، وہاں کے وزرا کی زندگی دیکھیں، ان کے وزرا باہر جاتے ہیں تو ان کو احکامات ہیں کہ 5 گھنٹے سے کم سفر ہے تو اکانومی کلاس میں سفر کریں۔

انہوں نے کہا کہ انگلینڈکا وزیراعظم امریکا گیا تو وہاں سفارت خانے میں رہتا ہے اس لیے کہ ہوٹل میں ہمارا خرچہ نہ ہو۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا سیونگ اکاؤنٹس کی شرح منافع 7.25 فیصد کرنے کا اعلان

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے مقروض ملک کے وزرائے اعظم نے باہر جو پیسہ خرچ کیا ہے، اس کے بارے میں کیا بتاؤں، اس کو ہم نے کافی دکھایا بھی ہے، انہوں نے 10 گنا زیادہ خرچ کیا جبکہ میں آرام سے گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک حکمران کو احساس نہ ہو کہ میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کر رہا ہوں تو لوگ اس کو ٹیکس نہیں دیں گے اور وہ کلچر نہیں بنے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب یونیورسٹی میں تھا وہ وہاں طلبہ بھی کہتے تھے کہ یہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ ہے اور غلط خرچ کر رہے ہیں، عوام نظر رکھتے تھے اور حکمرانوں کو بھی پتہ تھا کہ ہم قابل احتساب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان دو وجوہات کے باعث ہمارا ٹیکس کلچر نہیں بنا، اب ہم اس مقام پر پہنچے ہیں یہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کلچر تیار ہو کیونکہ اب ہماری ملکی استحکام اس پر ہے، ہم ایسے آگے نہیں چل سکتے، 2008 سے 2018 کے دوران اتنے قرضے لیے کہ 4 گنا زیادہ قرضے بڑھے ہیں۔

تقریب سےخطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو سزائیں ملنی چاہیئں کہ آپ کیسے 6 کھرب سے 10 برس میں پاکستان کا قرضہ 30 کھرب تک لے کر گئے، نہ کوئی بڑے کام نہیں ہوئے، کوئی ڈیم نہیں بنا اور نہ ہی کوئی اسٹرکچر پروگرام بنا، جس سے آمدنی ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں جب اتنا قرضہ چڑھادیں تو اب ہماری حکومت کا یہ چیلنج ہوا کہ ریکارڈ ٹیکس وصول کیا۔

ایف بی آر حکام کو مبارک باد دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ٹیم کو ریکارڈ ٹیکس وصولی پر مبارک باد اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ امید ہے کہ ہماری ٹیکس وصولی ریکارڈ 6 ہزار ارب تک پہنچ جائے گی، تو اس میں سے 3 ہزار ارب ان کے لیے ہوئے قرضوں پر جائے گا اور 22 کروڑ عوام کے لیے 3 ہزار ارب رہ جائے گا، ان کی صحت کا دھیان رکھنا ہے، ہسپتال بنانےہیں، اسکول بنانےہیں، سب سے اہم انہیں تعلیمی ادارےبنانے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری زراعت میں اگر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس میں بہت صلاحیت ہے لیکن ان سب کے لیے کتنا پیسہ رہ جاتا ہے پھر ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں اور اس پر سود دینا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی4 روپے ہر مہینے بڑھانا ہے، شوکت ترین

انہوں نے کہا کہ ہم اسی سائیکل میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ اسی وقت ٹوٹے گا جب ہم ٹیکس وصولی بڑھائیں گے اور وہ تب کریں گےجب ہم ٹیکنالوجی کی طرف جائیں گے۔

وزیراعظم نے ٹریکٹ اینڈ ٹریس سسٹم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کی طرف یہ بڑا قدم ہے، ہم نے شوکت خانم میں 20 سے 22 سے پہلے آٹومیشن میں لائے اور پیپر سے آزاد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نیویارک سے کسی نے فون کرکے بتایا کہ آپ کے ہسپتال میں کمیشن لیا گیا تو ان سے تفصیلات لیں جو کینسر کی ادویات بیچتا تھا لیکن آٹومیشن کی وجہ سے دو گھنٹوں میں ساری تفصیلات سامنے آگئیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے بہت پہلےکہا تھا کہ پاکستان میں 8 کھرپ ٹیکس وصولی ہونی چاہیے اور مجھے امید ہےکہ جس رفتار سے آپ جارہے ہیں وہ ہدف پورا ہوجائے گا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا ممکن ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کے ہدف سے 30 ارب زیادہ حاصل کرلیے

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ ہماری بقا اسی سے جڑی ہوئی ہے، یہ تقریباً ہماری ملکی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے پیسہ چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ جب عام لوگوں کو یقین دلائیں گے کہ آپ کا پیسہ آپ پر خرچ ہورہا ہے اور لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں پر حکمران اشرافیہ کی پرتعیش زندگی کو نیچے لے آئیں گے تو ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوگا اور ہمیں پیسے اکٹھا کرنا آسان ہوگا اور لوگوں کو ٹیکس دینے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں خود اس نظام کی نگرانی کروں گا اور دیکھوں گا کہ سرمایے میں کس قدر اضافہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں