پاکستانی طلبہ کی چین واپس جانے کیلئے وزیر اعظم سے مدد کی اپیل

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2021
طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم ویکسین لگوا چکے ہیں اور چین میں قرنطینہ کے لیے بھی تیار ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم ویکسین لگوا چکے ہیں اور چین میں قرنطینہ کے لیے بھی تیار ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

دو سال قبل شروع ہونے والی عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر چین سے واپس پاکستان آنے والے تقریباً 6 ہزار پاکستانی طلبہ کے لیے پڑوسی ملک میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنا مشکل ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین واپس جانے کی تمام تر کوششوں کے بعد ان طلبہ نے اب وزیر اعظم عمران خان سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر سکیں۔

دسمبر 2019 میں وسطی چین کے صوبہ ہوبی کے دارالحکومت ووہان میں کووڈ 19 کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تھی جس کے بعد لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے بیشتر ممالک میں بین الاقوامی آمدورفت معطل کردی گئی تھی۔

ابتدا میں پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ طلبہ کو واپس نہیں بلایا جائے گا، لیکن بعد ازاں والدین اور رشتہ داروں نے احتجاج شروع کردیا تھا جبکہ مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنے والے طلبہ کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: چین سے پاکستانی طلبہ کی واپسی کا معاملہ: والدین کی سہولت کیلئے فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم

جنوری 2020 میں طلبہ واپس پاکستان آگئے تھے اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ اسی سال جولائی میں واپس چین چلے جائیں گے۔

اب کورونا وائرس کی وبا پر تقریباً قابو پایا جاچکا ہے لیکن وہ طلبہ جنہوں نے پاکستان میں واقع بیجنگ سفارتخانے میں رجسٹریشن کروائی ہے واپس چین نہیں جاسکتے۔

شنگھائی یونیورسٹی کے پاکستانی طالبعلم آدم علی نے ڈان کو بتایا کہ انجینئرنگ، میڈیسن، پی ایچ ڈی اور دیگر شعبہ جات کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ جنوری 2020 میں پاکستان آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی ذوالفقار بخاری نے وعدہ کیا تھا کہ جولائی 2020 میں تمام طلبہ کو واپس چین بھیج دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم 2 سال سے پاکستان میں ہیں لیکن چین کی جانب سے پاکستانی طلبہ کے لیے اب تک کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

طالبعلم آدم علی نے کہا کہ واپس پاکستان آنے والوں میں طلبہ کی بڑی تعداد شامل تھی لیکن 5 ہزار 875 طلبہ نے پاکستان میں واقع چینی سفارتخانے میں اپنی رجسٹریشن کروائی تھی اور واپس بھیجنے کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں پھنسے پاکستانیوں کے اہل خانہ نے حکومتی وضاحت مسترد کردی، طلبہ کی واپسی کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ چین میں ہماری یونیورسٹیوں نے ہمیں مطلع کیا ہے کہ ایکس کیٹیگری (تعلیم) کے ویزے جاری نہیں کیے جارہے ہیں اور جامعات، چینی حکومت کی طرف سے کال لیٹر جاری کرنے کے نوٹی فکیشن کا انتظار کر رہی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی ایک مقامی کمپنی، جو ویزے کے لیے طلبہ کے پاسپورٹ جمع کرتی ہے، وہ ایکس کیٹیگری کے پاسپورٹ نہیں لے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اس پر پابندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے 5 اکتوبر اور پھر رواں سال 3 نومبر کو 2 ملاقاتیں کی اور انہوں نے ہمیں اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کروائی، لیکن ہمارے مسئلے کے حل کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں اور ہمارا مستقبل محفوظ کریں۔

پی ایچ ڈی کی طلبہ گُل مینا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے 2 بار ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے شہریوں کی واپسی کے لیے تمام آپشنز زیر غور ہیں، ظفر مرزا

انہوں نے کہا کہ 2 ماہ قبل طلبہ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار سے بھی ملاقات کی تھی اور انہوں نے بھی یقین دہائی کروائی تھی کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

گزشتہ ہفتے عثمان ڈار نے ایک بار پھر وعدہ کیا کہ وہ یہ مسئلہ حل کریں گے۔

گل مینا کا کہنا تھا کہ ہم سب ویکسین کی مکمل خوراک لگوا چکے ہیں اور چین میں قرنطینہ کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمیں ویزا جاری نہیں کیا جارہا۔

میڈیکل کے طالبعلم علی رضا کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی گورنر پنجاب چوہدری سرور سے ملاقات کی لیکن انہیں صرف یقین دہانی کروائی گئی۔

گزشتہ ہفتے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہود نے صوبائی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اجاگر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں