لاہور پولیس کا 10 ماہ میں 16 ہزار شکایات پر مقدمات درج کرنے سے گریز

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2021
یہ معاملہ پولیس قیادت کے حالیہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر رپورٹ ہوا— فائل فوٹو: اے پی پی
یہ معاملہ پولیس قیادت کے حالیہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر رپورٹ ہوا— فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور پولیس نے شہریوں کی جانب سے گزشتہ 10 ماہ کے عرصے میں جمع کرائی گئی شکایات پر مقدمات درج کرنے سے گریز کے بعد بالآخر ’پرانی شکایات‘ پر 16 ہزار مقدمات درج کر لیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اتنی بڑی تعداد میں جرائم کے اعداد و شمار کو چھپانے کا پہلا واقعہ ہے جس کی نشاندہی ہوئی اور یہ معاملہ پولیس قیادت کے حالیہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر رپورٹ ہوا۔

اس سے باخبر ایک عہدیدار نے کہا کہ جب پولیس جرائم کی شرح کم دکھانے کے لیے گڑبڑ کرتی ہے تو شکایات کی اطلاع نہیں دی جاتی، اس غیر اخلاقی عمل نے شہریوں کو ان کی چھینی یا چوری شدہ املاک کی برآمدگی کے لیے مجرموں کو قانون کی عدالت میں لے جانے کے بنیادی حق سے محروم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور سمیت 3 پولیس افسران کی ترقی کا معاملہ غیر یقینی کا شکار

عہدیدار کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کے 6 ڈویژنز میں شہریوں نے یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک 16 ہزار 533 شکایات درج کروائیں۔

یہ تمام شکایات گاڑیاں چھیننے، ڈکیتی، چوری جیسے سنگین جرائم سے متعلق تھیں جنہیں پولیس ریکارڈ میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔

اس پیش رفت کی سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیس نے گاڑیاں چھیننے اور چوری سے متعلق جرائم میں بھی گڑبڑ کی، ڈان کے پاس دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں اس قسم کے جرائم اتنی بڑی تعداد میں غیر رپورٹ شدہ نہیں رہے۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 10 ماہ کے عرصے میں چوروں نے شہریوں کی 4 ہزار 209 موٹر بائیکس اور 139 کاریں اور دیگر گاڑیاں چوری کیں جبکہ گن پوائنٹ پر 45 موٹرسائیکلز اور 3 کاریں یا دیگر گاڑیاں چوری کی گئیں، یہ تمام جرائم نومبر کے مہینے میں درج کیے گئے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا مارچ ’سنبھال نہ پانے پر‘ لاہور پولیس کی اعلیٰ قیادت تبدیل

یہ صورتحال صوبائی دارالحکومت میں صوبائی پولیس سربراہ اور متعلقہ اداروں کے دیگر افسران کی ناک کے نیچے جرائم کے اعداد و شمار چھپانے کا خوفناک رجحان ظاہر کرتی ہے۔

پولیس ماہرین نے کہا کہ عمومی طور پر پولیس افسران کی کارکردگی کو جرائم کی شرح میں کمی یا اضافے سے پرکھا جاتا ہے، ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران افسران نے جرم کو ریکارڈ نہ کر کے اسے قابو کرنے کی کوشش کی۔

ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ جرائم کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کو اکثر غیر پیشہ واریت کی بدترین مثال قرار دیا جاتا ہے جس نے پولیس کے محکموں کو پریشان کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کا اندراج ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ قابل سزا جرائم ہونے کا ریکارڈ رکھا جاسکے جس سے شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مزید پڑھیں: 2020 میں 279 غیرفطری اموات'، لاہور پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا

اتنی بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف شکایات درج کرانے کے شہریوں کے بنیادی حقوق سے انکار کے سرکاری اعداد و شمار نے پولیس افسران کے ساتھ ساتھ موجودہ طریقہ کار کو بھی بُری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 16 ہزار 533 غیر رپورٹ شدہ شکایات میں ڈکیتیوں کی 16، لوٹ مار کی 2 ہزار 365، گاڑیوں کی چھینا جھپٹی کی 4 ہزار 413، گھر اور دکانوں میں چوری کی 570، اسٹریٹ کرائم کی ایک ہزار 360، املاک کی 7 ہزار 210 اور 599 متفرق شکایات تھیں۔

ڈویژن کے اعتبار سے کنٹونمنٹ ڈویژن مقدمہ درج کرنے کے انکار میں 4 ہزار 188 شکایات کے ساتھ سرِفہرست، ماڈل ٹاؤن ڈویژن 3 ہزار 356 شکایات کے ساتھ دوسرے اور سول لائنز ڈویژن 2 ہزار 770 شکایات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

اسی طرح یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک سٹی ڈویژن نے 2 ہزار 609 شکایات پر فوجداری مقدمات درج نہیں کیے، صدر ڈویژن نے 2 ہزار 77 سے انکار کیا جبکہ اقبال ٹاؤن ڈویژن نے ایک ہزار 533 شکایات کو مسترد کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں