توہین عدالت کیس: رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2021
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈووکیٹ رائے نواز کھرل کی رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور کیس میں فریق بننے کی درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو / ڈان نیوز
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈووکیٹ رائے نواز کھرل کی رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور کیس میں فریق بننے کی درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو / ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی درخواست مسترد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈووکیٹ رائے نواز کھرل کی رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور کیس میں فریق بننے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، پہلے یا بعد میں اگر رانا شمیم فرار ہوگئے تو کیا ہوگا۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنا حکومت کا کام ہے اس عدالت کا نہیں، رائے نواز کھرل کے وکیل نے استدعا کی کہ نام ای سی ایل میں ڈالا جائے یا رانا شمیم کو کہیں پاسپورٹ سرینڈر کرے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ میں رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست

دوسری درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ توہین عدالت کے کیس میں کیسے فریق بن سکتے ہیں؟

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق سب معلومات رکھتا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کو چھوڑیں، توہین عدالت کیس تو عدالت کا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔

دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور ایڈووکیٹ رائے نواز کھرل کی رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فریق بننے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا اور وکیل کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی مسترد کردی گئی۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی عدالت اور ملزم کا معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ کرنا عدالت کا اختیار ہے، کوئی اور شہری توہین عدالت کے معاملے میں فریق نہیں بن سکتا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم توہین عدالت کیس میں فریق بننے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی جاتی ہے، جبکہ رانا شمیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق درخواست بھی خارج کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ابھی بیان حلفی نہیں دیکھا، اصل دستاویز جمع کرانے کیلئے وقت چاہیے، رانا شمیم

خط ریکارڈ کا حصہ بنانے کیلئے متفرق درخواست

دوسری جانب رانا شمیم کا اصل حلف نامہ برطانیہ سے منگوانے کے معاملے میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالتی ہدایت کے مطابق سہولت فراہم کرنے کا خط عدالت پیش کردیا۔

خط عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے متفرق درخواست بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اٹارنی جنرل کا سابق چیف جج گلگت بلتستان کو لکھا خط ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

رانا شمیم کو خط میں اٹارنی جنرل نے لکھا تھا کہ سابق چیف جج، بیان حلفی پاکستانی ہائی کمیشن لندن بھیج دیں۔

خط میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی قسم کے ابہام سے بچنے کے لیے حلف نامہ سربمہر لفافے میں ہائی کمیشن لندن کو بھیجا جائے، ہائی کمیشن حلف نامہ وزارت خارجہ کے ذریعے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیجے گا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 15 نومبر کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثار کیوں نہیں جا سکتے۔

30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے۔

عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر کو اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں