سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2021
عدالت نے انصار عباسی کی رپورٹ پر توہین عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس لیا تھا — تصویر: ڈان نیوز
عدالت نے انصار عباسی کی رپورٹ پر توہین عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس لیا تھا — تصویر: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق الزامات پر جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن، صحافی انصار عباسی اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو شوکاز نوٹس جاری کر کے 7 روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی تہلکہ خیز رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے آج پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے‘۔

چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب

عدالت کے طلب کرنے پر اخبار کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن، ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری اور رپورٹر انصار عباسی پیش ہوئے جبکہ رانا شمیم عدالت سے غیر حاضر رہے۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔

سابق جج رانا شمیم غیر حاضر

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ والد صاحب رات کو ہی اسلام آباد پہنچے ہیں، طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے عدالت میں حاضر نہ ہوسکے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوشش ہے کہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو، ہم عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کی مضبوطی چاہتے ہیں۔

میر شکیل الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بلایا، یہ آئینی عدالت ہے، کیا لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھایا جارہا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اخبار اور سوشل میڈیا میں فرق ہے، اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا کی نہیں، آپ کی رپورٹ کی وجہ سے سابق چیف جج کو نوٹس کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے میرے ججز پر اعتماد ہے، اگر اعتماد نہ ہوتا تو یہ کیس نہی ہوتا، عدالتی کارروائی بہتر انداز میں نہیں چل سکتی، اس ہائی کورٹ میں ہر جج نے عوام کا اعتماد بحال رکھا ہے، ہائی کورٹ کے ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں۔

ججز بھی قابل احتساب ہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز بھی قابل احتساب ہیں، ججز پر تنقید شہریوں کا حق ہے، ہم اپنا دفاع نہیں کر رہے لیکن میرے خلاف سوشل میڈیا پر سنگین نوعیت کی مہم چلائی گئی۔

مزید پڑھیں: ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اخبار کی پالیسی یہ اجازت دیتی ہے کہ لندن میں فائل ہونے والا ایفی ڈیوٹ (بیان حلفی) آپ اخبار کے پہلے صفحے پر چھاپ دیں؟ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ یعنی ایک آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے۔

دوران سماعت عدالت نے چیف ایڈیٹر کو ’دی نیوز‘ کی ہیڈ لائن پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوں نے کہا کہ میری عینک موجود نہیں ہے، جس پر عدالت نے انصار عباسی کو ہیڈ لائن پڑھنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی سے آرڈر لیا ہے، یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں، سابق جج کے بیان حلفی کو کہاں پر نوٹرائز کیا گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ میرے جج پر انگلی اٹھائی گئی، یہ اعلیٰ عدلیہ کے تقدس کا معاملہ ہے، بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

انصار عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بیانِ حلفی لندن میں دائر ہوا تو عدالت نے دریافت کیا کہ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائز کیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے چیک کیا احتساب عدالت کا فیصلہ کس تاریخ کو آیا تھا اور عدالتی بینچ کب بنا؟ یہ بات آپ رجسٹرار کو فون کر کے چیک کر سکتے تھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ تحقیقات کے ماہر صحافی ہیں، کیا آپ نے خود تحقیقات کی؟

انہوں نے مزید کہا کہ 16 جولائی کو اپیل دائر ہوئی، کونسا بینچ بنا؟ جس وقت اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے اور جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب موجود تھے، کیا آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے معلوم کیا؟

عدالت نے صحافی سے استفسار کیا کہ اس کیس میں ملک سے نامی گرامی اچھے وکلا شامل تھے، کیا آپ نے ان وکلا سے پوچھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے تاریخ مانگی تھی یا نہیں؟

عدالت نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ پیشہ ورانہ لوگ ہیں اور انہیں معلوم ہے، اس وقت جو درخواست گزار تھے ان کے وکلا کی بڑی ٹیم تھی۔

’میرے سامنے کوئی جج ایسا کہے تو سپریم جوڈیشل کونسل جاؤں گا‘

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث پورے ملک کے سب سے بہترین وکیل اس وقت درخواست گزار کی پیروی کر رہے تھے، کیا آپ نے ان سے چیک کیا کہ اس وقت کونسا بینچ تھا؟

مزید پڑھیں: ملک میں جمہوریت نہیں، جسٹس ثاقب نثار کی بدترین آمریت قائم ہے، نواز شریف

انہوں نے کہا کہ کیا کسی وکیل دفاع نے یہ استدعا کی کہ عام انتخابات سے قبل کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، وکلا نے عام انتخابات کے بعد کیس مقرر ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، جس روز فیصلہ ہوا اسی روز معطل ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ رجسٹرار سے پتا کریں ایک سال سے دو بینچز کام کر رہے تھے، لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کے لیے اسکینڈلز بنانا شروع کر دیے۔

عدالت نے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں جج کا نام آپ نے خالی چھوڑ دیا، بار بار اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ بینچز کوئی اور بناتا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں شروع ہو گئیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ میرے سامنے کوئی جج ایسے کہے تو میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک چیف جسٹس کسی کے سامنے کہے کہ جرم کرو، اس پر 3 سال تک خاموش رہا جائے، پھر ایک پراسرار بیان حلفی سامنے آجاتا ہے، اخبار نے کیسے ایسا بیان حلفی چھاپ دیا، عدالتی نظام انصاف کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رانا شمیم کہاں ہیں، وہ خود کیوں پیش نہیں ہوئےجس پر وکیل نے آگاہ کیا کہ وہ برطانیہ میں تھے اور رات کو ہی وطن واپس پہنچے ہیں۔

اس دوران صحافی انصار عباسی نے عدالت میں کچھ کہنے کی اجازت مانگی تو عدالت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا ہے۔

رانا شمیم کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ ان کے مؤکل بیمار ہیں لہٰذا ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں جمہوریت نہیں، جسٹس ثاقب نثار کی بدترین آمریت قائم ہے، نواز شریف

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل فیصل واڈا صاحب نے جو اول فول بکا ہے اس کا نوٹس بھی ہونا چاہیے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ الگ سے درخواست دائر کر دیں، ہم اس کیس کے ساتھ اسے شامل نہیں کریں گے۔

اٹارنی جنرل خالد منصور خان نے کہا کہ عدالت سے باہر بیان حلفی دیا گیا، رانا شمیم کے بھائی 6 کو فوت ہوئے اور 10 کو بیان حلفی دیا گیا۔

’چیلنج ہے ثابت کردیں بینچ کسی کے کہنے پر توڑا تھا تو میں ذمہ دار‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بینچ بنا تھا وہ کس کے کہنے پر ٹوٹا تھا؟

انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوتی رہیں، سب کو چیلنج ہے اگر ثابت کر دیں کہ بینچ کسی کے کہنے پر توڑا تھا تو میں ذمہ دار ہوں۔

انصار عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ سر کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں، میں ایک میسنجر اور صحافی ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کے چیف ایڈیٹر سے سوال کرتا ہوں، ایڈیٹر کدھر ہیں؟ تو انصار عباسی نے کہا کہ اسٹوری میں نے دی ہے، آپ نے جو کارروائی کرنی ہے میرے خلاف کریں۔

سینیئر صحافی نے کہا کہ میں نے جو کیا عدالت کی عزت کے لیے کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ نے عدالت کی عزت کی ہے؟ عامر غوری صاحب آپ بتائیں۔

انصار عباسی نے کہا کہ چیف جج گلگت بلتستان سابق چیف جسٹس پر الزام لگا رہے ہیں، میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں لیکن اس پر انکوائری بھی کریں، میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ عامر غوری صاحب آپ نے ایڈیٹر کے طور پر اس خبر کو منظور کیا ہوگا؟ جس پر عامر غوری نے کہا کہ دستاویزات آتی ہیں اس کے بعد خبر دی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا دستاویزات آتی ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ صرف میسنجر ہیں، سوشل میڈیا اور دی نیوز میں کیا فرق ہے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ الیکشن سے پہلے صرف دو بینچ کام کر رہے تھے، کسی نے بھی ان چیزوں کی تصدیق نہیں کی، خبر کے ذریعے عدالت اور ججز کی ساکھ پر سوال اٹھایا گیا، میں آپ سب کو شوکاز نوٹس جاری کرتا ہوں، 7 روز میں شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔

بعد ازاں عدالت نے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 26 نومبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں