لاہور ہائیکورٹ: صوبوں میں پی اے ایس افسران کی تعداد بڑھانے کا نوٹیفکیشن معطل

09 دسمبر 2021
پی ایم ایس) کے متعدد افسران نے درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ
پی ایم ایس) کے متعدد افسران نے درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے ایک نوٹیفکیشن کی کارروائی روک دی جس میں صوبائی بیوروکریسی میں وفاق کا حصہ بڑھایا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ساجد محمود نے سیٹھی نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے وجود اور صوبوں میں اس کے ارکان کی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے نوٹیفکیشن پر حکم امتناع جاری کیا۔

ایڈووکیٹ بلال حسن منٹو کے توسط سے پنجاب پروونشل مینیجمنٹ سروس (پی ایم ایس) کے متعدد افسران نے درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت بیوروکریسی کے اعتماد کو بحال کرنے میں ’ناکام‘

وکیل کا کہنا تھا کہ 1954 کے سی ایس پی قوانین جنہیں وفاقی حکومت اپنے افسران کی صوبوں میں تعیناتی کے لیے استعمال کرتی ہے وہ غیر آئینی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی عہدوں پر سول سرونٹس یا پی اے ایس افسران تعینات کرنے کی حقدار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت وفاق نے من گھڑت قوانین کے ذریعے پی اے ایس افسران کے لیے صوبے میں آسامیاں مختص کر کے پنجاب حکومت کے اختیارات پر تجاوز کیا۔

مزید پڑھیں:‘انتخابات میں پنجاب بیوروکریسی کی تعیناتی قبول نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت صرف وفاقی قانون سازی کی فہرست پر معاملات میں اپنے سول سرونٹس مقرر کرسکتی ہے اور چیف سیکریٹری سمیت دیگر تمام تعیناتیاں صوبائی عہدے ہیں جن پر وفاقی ملازمین قبضہ نہیں کرسکتے۔

ایڈووکیٹ بلال حسن منٹو نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے 12 مارچ 2021 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے ذریعے صوبوں میں وفاقی افسران کے عہدے 115 سے بڑھا کر 446 کردیے گئے تھے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وفاق کی جانب سے صوبائی بیوروکریسی پر کنٹرول اور غیر آئینی تسلط کو ختم کیا جائے جو باقاعدگی سے اہم صوبائی عہدوں پر پی اے ایس اراکین تعینات کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افسران کے اچانک تبادلوں، اہم عہدوں کے خالی ہونے سے پنجاب میں گورننس کا بحران

عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ فریقین کو پنجاب میں صوبائی عہدوں پر پی اے ایس افسران کی تعیناتیاں واپس لینے کا حکم دیا جائے اور صرف پی ایم ایس افسران کو ان عہدوں پر تعینات کیا جائے۔

چنانچہ جسٹس ساجد محمود نے سیٹھی نے نوٹیفکیشن معطل کر کے آئندہ سماعت پر صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے تفصیلی جواب طلب کرلیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں