پاکستان، امریکا اور چین کے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا چاہتا ہے، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2021
وزیراعظم عمران خان کا سیمینار سے خطاب—تصویر: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان کا سیمینار سے خطاب—تصویر: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا کی صورتحال سرد جنگ کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے اور بلاکس بن رہے ہیں جسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پاکستان کو کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی سرد جنگ سے دنیا کو بہت بڑا نقصان ہوا اس لیے پاکستان پھنسنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو قریب لایا جائے جیسے ہم نے ایران اور سعودی عرب تنازع میں کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان نے جس طرح 70 کی دہائی میں امریکا اور چین کے تعلقات استوار کرائے اسی طرح ہم کسی طرح ان کے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو روکیں کیوں تجارت میں مسابقت ہمیشہ رہی ہے لیکن کہیں اس سے آگے نہ چلے جائیں جیسا سویت یونین، امریکا اور مغربی ممالک کے درمیان معاملات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان متعدد امور پر امریکا کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے، دفتر خارجہ

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سامنے دوسرا بڑا مسئلہ افغانستان ہے جہاں اس سے برے حالات ہوسکتے تھے اور ہمیں خانہ جنگی شروع ہونے کا خدشہ تھا جو ہمارے لیے سب سے خوفزدہ صورتحال تھی۔

’ہمارے مستقبل کے لیے افغانستان میں امن ہونا بہت ضروری ہے‘

انہوں نے مزید کہا کہ خانہ جنگی شروع ہوجاتی تو یہاں مہاجرین آتے اور افغانستان کی تباہی ہوتی لیکن اگر دیکھا جائے تو اس اعتبار سے افغان عوام اور ہماری خوشقسمتی ہے کہ وہاں اس طرح کی تباہی نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن جس تباہی سے افغانستان کو بچانا ہے وہ انسانی بحران ہے کیوں کہ اثاثے منجمد ہونے کے اثرات عوام پر پڑیں گے اس لیے ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ دنیا کو آگاہ کریں گے کہ آپ بھلے طالبان کو پسند کریں یا نہ کریں اصل مسئلہ 4 کروڑ افغانوں کے لیے ہے، اگر یہی حالات چلتے رہے تو ان انسانوں پر کیا گزرے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اپنی پوری کوشش کرے گا لیکن جب تک امریکا اس بات کا احساس نہیں کرے گا کہ فنڈز منجمد کرنے، معیشت کو سکیڑ دینے کے نتیجے میں اگر انسانی بحران سنگین ہوگیا تو اس کا نقصان سب کو ہوگا لیکن پاکستان کو سب سے زیادہ ہوگا جبکہ 40 سال سے مشکلات کا سامنا کرنے والے افغانوں کے لیے بھی بہت مشکل وقت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا کیوں کہ ہمارے مستقبل کے لیے افغانستان میں امن ہونا بہت ضروری ہے، ہمارے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک بھی ہمارے ساتھ کنیکٹ ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے افغانستان میں امن کی شدید ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کا افغانستان میں استحکام کیلئے پاک۔امریکا تعاون بڑھانے پر زور

وزیراعظم نے سی پیک ہمارے لیے بہترین موقع ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت پہلی حکومت ہے جس نے موسمیاتی تبدیلیوں کو فلیگ کیا، جب بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ گلوبل وارمنگ سے ہمالیہ کے گلیشیئرز پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نے کہا ملک میں یکساں اور اصل سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ بڑے ہوتے ہوئے دیکھا کہ 60 کی دہائی میں ہمارا معیاری پلاننگ کمیشن تھا جس سے ملک کی سب سے زیادہ معاشی ترقی ہوئی بلکہ ملائیشیا، جنوبی کوریا جیسے ممالک یہاں آئے اور پاکستان کو بطور ماڈل دیکھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہماری پستی وہاں سے شروع ہوئی جب انٹیلیکچوئل بنیاد کا خاتمہ، سوچنے کے عمل اور عقل کے استعمال کو کم کردیا اور ہم ایک غیر حقیقی ملک بننا شروع ہوگئے، باہر سے آنے والے خیالات کو اپنانا شروع کردیا، ہماری اپنی اصل سوچ ہی ختم ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کے تھنک ٹینکس نہ ہو تو باہر سے خیالات لیے جاتے ہیں اور جو بھی رجحان پروان چڑھتا ہے ہم اس کے غلام بن جاتے ہیں اس لیے تھنک ٹینکس کی بہت ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ تھنک ٹینکس جہاں دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے وہیں مقامی میڈیا کو بھی آگاہی دیں کیوں کہ پروگرامز میں لوگوں کو معلومات نہیں ہوتی اور وہ بات کرتے رہتے ہیں جس سے لوگ بھی گمراہ ہوتے ہیں جس سے ملک میں یکجتی نہیں آتی اور لوگوں کو قومی مفاد کا علم نہیں ہوپاتا۔

یہ بھی پڑھیں:'پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی مثال کو مشعل راہ بنائیں'

عمران خان نےکہا کہ بجائے یہ کہ دنیا ہماری تشریح کرے ہم خود اپنی تشریح کریں، مجھے یہ دیکھ کر بہت تکیلف ہوتی تھی 11/9 کے بعد امریکا میں بیٹھے لوگ پاکستان پر بات کرتے تھے جنہیں یہاں کی سمجھ ہے، نہ عوام کو جانتے ہیں اور نہ ہی کلچر سے واقف ہیں اور وہاں بیٹھ کر انتہا پسندی، اسلامی بم جیسی باتیں کرتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے خلاف یہ سارا پروپیگنڈا باہر سے آتا تھا اور مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا کہ ہماری جانب سے اس پر غور و فکر کیا گیا جواب نہیں دیا جاتا تھا،مختلف قسم ردِ عمل آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ مغربیت کو جدت سمجھتے ہیں کہ مغربی سے جو کچھ آئے وہ درست ہے، ان کی اصل سوچ نہیں ہے، دوسری جانب کچھ ایسے ردِعمل عناصر ہیں کہ وہ مغرب کی ہر چیز مسترد کردیتے ہیں کیوں کہ ہماری اصل سوچ تیار ہی نہیں کی گئی۔

وزیراعظم نے کہا رحمتہ اللعالمین سوسائٹی بنانے کا بھی یہی مقصد ہے کہ وہاں باہر لوگ بیٹھ کر پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیتے ہیں اور ایک شدت پسند طبقے پر فوکس کر کے پورے معاشرے کو شدت پسند قرار دے دیتے ہیں۔

’جنگ سے مسئلہ حل کرنے کے نتائج ہمیشہ غلط نکلتے ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال یہ ہے کہ جب بھی جنگوں سے مسئلے حل کیے گئے اس کا نتیجہ ہمیشہ غلط نکلا، جو جنگ سے فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے دنیا کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ہوتا اور ہتھیاروں پر تکبر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آغاز میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ چند ہفتے کی جنگ ہے لیکن وہ طویل ہوجاتی ہے، یہی افغانستان میں اور خود ہمارے ملک میں ہوا جب فوجی آپریشن کیے گئے۔

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ میرا یہ ٹھوس خیال ہے کہ جنگوں سے جو بھی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ انسانیت کا نہیں سوچتا، افغانستان کی مشکلات ہی دیکھ لیں، اس لیے ہمیں آخری لمحے تک مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا تنازع ہے اور ہم نے حکومت میں آتے ساتھ ہی بھارت سے بات چیت کی کوشش کی، نریندر مودی کو کال بھی کی لیکن مجھے احساس ہوا کہ وہ امن کی کوشش کو کمزوری سمجھ رہا تھا۔

مزید پڑھیں:'دنیا پاکستان کو توڑنا چاہتی ہے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے'

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دوسری چیز یہ ہے کہ ہمارا رابطہ ایک نارمل بھارتی حکومت سے نہیں ہورہا تھا بلکہ ایک نظریے سے ہمارا مقابلہ تھا جو آر ایس ایس ہے، جس کے ساتھ بہت مشکل ہے کہ وہ ہم سے بات چیت کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری یا کشمیر کے عوام کی بدقسمتی نہیں بلکہ بھارت کے عوام کی بدقمستی ہے کہ اتنا بڑا ملک جس میں 50 سے 60 کروڑ اقلیتیں ہیں جنہیں برہمن اکثریت الگ کررہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایسا انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ آبادی کے اتنے بڑے حصے کو دوسرے درجے کا شہری قرار دے دیا جائے، اس کے ہمارے اور کشمیر کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارتی معاشرے کے لیے بھی سخت اثرات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب لوگوں کو سائیڈ پر لگایا جاتا ہے تو انہیں انتہا پسند بنا دیا جاتا ہے تو اگر اتنی بڑی اقلیت میں سے تھوڑے افراد بھی انتہا پسندی کا شکار ہوجائیں تو بھارت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

’مسئلہ کشمیر بندوقوں، بم سے نہیں صرف مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی نے موسمیاتی تبدیلی کو خطرہ نہیں سمجھا، بھارت میں بھی گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، ہم دونوں کو مل کر موسمیاتی تبدیلیوں پر پورا زور دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن مجھے دنیا کے رہنماؤں میں اس حوالے سے مطلوبہ سنجیدگی نہیں دکھائی دے رہی کیوں کہ کمرشل مفادات موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے اقدامات سے متصادم ہیں اور یہ بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اپنی کوشش کررہا ہے جسے دنیا میں سراہا گیا ہے، لیکن یہ خطہ جڑا ہوا ہے کوئی ایک ملک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں، اس خطے میں سیاسی اختلاف اور تنازع کی وجہ سے تجارت کم ہے دوسرا موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی سب متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ بھارت میں ایسی حکومت آئے جس کے ساتھ سمجھداری سے بات کی جاسکے اور مسائل حل کیے جائیں، ہمارا مسئلہ صرف کشمیر کا ہے، جو بندوقوں اور بم سے حل نہیں ہوگا صرف بات چیت سے ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت جو اسلحے کا استعمال اور مظالم ڈھا کر کشمیریوں کو دبا رہا ہے یہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا، آپ آبادی کے خلاف نہیں جیت سکے اگر ایسا ہوتا تو امریکا جس کی سب سے طاقتور فوج ہے وہ افغانستان میں کامیاب ہوچکا ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امید کرتے ہیں کہ بھارت میں ایسی حکومت آئے جس کے ساتھ میز پر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر حل کیا جائے اور پھر مشترکہ طور پر مختلف چیزوں سے لڑا جائے۔

عمران خان نے لاہور میں اسموگ کی صورتحال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہم جو کچھ بھی کرلیں یہ صرف آدھا ہی حل ہوگا کیوں کہ یہ دہلی سے لے کر یہاں تک آلودگی کا ایک کور آگیا ہے۔

پاکستان خطے میں کسی تصادم کا حصہ نہیں بنے گا، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیانیے کو تحقیق و مذاکرات کے ذریعے فروغ دینے کےلیے اقدامات کے جارہے ہیں، اس کے لیے پاکستان کے ایکسلینس سینٹر کام کر رہے ہیں ورکنگ سیشنز میں پاکستان اور بین الاقوامی تجزبہ کار گفتگو کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دنیا تبدیل ہورہی ہے ممالک قوم پرستی کے ایجنڈوں پر پہنچ گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی سرد جنگ جنم لے رہی ہے، اسلحہ بنایا جارہا ہے اور ہتھیاریوں کی نئی ٹیکنالوجیز مستقبل کی فلاح کی فطرت کو تبدیل کر رہی ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حملہ کرنے کے ہتھیار ناقابل عمل نظریے کو اکسا رہے ہیں، اور جارحیت پسند مظاہرے سانحات کو فروغ دے رہے ہیں کو ہمارے خطے کے امن کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اب بھی دنیا میں سستا ترین ملک ہے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں دنیا کی تقریباً ایک چوتہائی آبادی مقیم ہے یہاں سیکیورٹی، قانون اور دیگر معاملات تنازعات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ میں متنازع مسئلہ ہے یہاں کے لوگ اقوام متحدہ کی قرار داد کےمنتظر ہیں، یہ تنازع تصادم کا باعث بن سکتا ہے جو خطے سیکیورٹی کو محدود کرتا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ خطہ پہلے ہی چین اور بھارت کے سرحدی تنازع، نیپال اور بھارت، بھارت اور سری لنکا اور بنگلادیش کے تنازعے کا سامنا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا نے اپنی تاریخ میں 25 سال کی خونریزی برداشت کیا ہے، افغانستان کئی دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، ہم خطے میں امن و استحکام کے لیے سیکیورٹی پلین کے اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں، یہ ایک حقیقی چیلنج ہے جس کا سامنا آج جنوبی ایشیا کو ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اپنا توجہ جغرفیائی معیشت کی طرف متوجہ کی ہے جو ہمیں جس سے نہ صرف کئی سہولیات ملی لیں بلکہ خطے میں ترقی بھی ہوگی۔

پاکستان چین اور وسطی ایشیا کو بحری سرحدی فراہم کر رہا ہے، جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان ایک آئیڈیل راہداری منصوبہ ہے جو پاکستان اور چین کی علاقائی رابطے کا ذریعہ ہے، اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سارک میں تنگ سیاسی نظریات سے نکال کر دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہےبدقسمتی سے بین علاقائی تجارت اب بھی نا ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ خطے میں کسی بھی تصادم کاحصہ نہیں بنے کا اور صرف ایسے اقدامات میں حصہ لے گا تجارت اور امن کو فروغ دے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کو بھی بہت سےروایتی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم موسمیاتی تبدیلی ، غذائی اور آبی انسیکیورٹی ہے۔

عمران خان کی حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انرجی سیکٹر، سیاحت، معیشت سمیت دیگر شعبوں پر کام کر رہی ہے، سیاحت اور روابط ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں