متنازع قوانین منسوخ، بھارتی کسان سال بھر کے احتجاج کے بعد اپنے گھروں کو روانہ

11 دسمبر 2021
مظاہرین نے قانون سازی کی منسوخی کے باوجود ابتدائی طور پر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا—فوٹو: اے پی
مظاہرین نے قانون سازی کی منسوخی کے باوجود ابتدائی طور پر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا—فوٹو: اے پی

بھارتی حکومت کی زرعی پالیسیوں کے خلاف ایک سال سے جاری احتجاج کے بعد اب ہزاروں کسان اپنا سامان سمیٹ کر اپنے گھروں کی جانب رواں ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گزشتہ مہینے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے ذریعے تین متنازع قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا جن کے بارے میں کسانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ نجی کمپنیوں کو ملک کے زرعی شعبے کو کنٹرول کرنے دیں گے۔

مزیدپڑھیں: بھارت میں متنازع زرعی اصلاحات کا قانون منسوخ

ہفتے کے اوائل میں سینکڑوں کسانوں نے خوشی میں رقص کیا اور فتح کا جشن منایا اب انہوں نے مرکزی شاہراہوں سے رکاوٹیں ہٹانا شروع کیں اور مرکزی شاہراہوں کے ساتھ ہزاروں عارضی کیمپس کو ختم کرنا شروع کیا۔

مظاہرین نے قانون سازی کی منسوخی کے باوجود ابتدائی طور پر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور دیگر مطالبات بشمول ان کی پیداوار کے لیے کم از کم بینچ مارک ریٹ کی قانونی ضمانت پر دباؤ ڈالا تھا۔

حکومت نے کہا کہ وہ فصلوں کی کم از کم قیمتوں کے تعین کے لیے ایک کمیشن بنائے گی اور فصلوں کو جلانے کے لیے کسانوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بند کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ہر موسم سرما میں دہلی کی ہوا کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔

حکومت نے مظاہروں کے دوران مرنے والے 700 سے زیادہ کسانوں کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے اور فارم قوانین کے خلاف سال بھر کی مہم کے دوران مظاہرین کے خلاف درج فوجداری مقدمات واپس لینے پر بھی اتفاق کیا۔

ستمبر 2020 میں منظور کیے گئے تین زرعی قوانین کا مقصد زرعی پیداوار کی منڈیوں کو ریاستی کنٹرول سے باہر کرنا اور نجی کمپنیوں کو اس شعبے میں داخل ہونے کی اجازت دینا تھا۔

مزیدپڑھیں: بھارت: اترپردیش میں لاکھوں کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف احتجاج

حکومت نے کہا کہ قوانین ایک ضروری اصلاحات ہیں لیکن کسانوں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انہیں بڑی کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا۔

جس کے بعد کسانوں نے شمالی پنجاب اور ہریانہ میں مقامی مظاہرے شروع کر دیے تھے۔

کسان رہنما راکیش ٹکائیت نے کہا کہ انہیں گندم اور چاول جیسی کچھ ضروری فصلوں کے لیے یقینی قیمتوں کی حکومتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جو 1960 کی دہائی میں بھارت کو خوراک کے ذخائر کو بڑھانے اور قلت کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: شدید احتجاج کے باوجود متنازع زرعی بل قانون بن گیا

نریندر مودی کی انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پہلے ہی اترپردیش میں برسر اقتدار ہے لیکن ڈوبتی ہوئی معیشت اور وبائی امراض سے متعلق حکومت کے ناقص فیصلوں کے باعث شدید دباؤ میں ہے۔

اگر کسان حکمران جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس سے نہ صرف دوسری مدت کے لیے ریاستی حکومت بنانے کے امکانات کم ہو جائیں گے بلکہ 2024 کے قومی انتخابات میں پارٹی کے بھاری اکثریت حاصل کرنے کے امکانات بھی کمزور ہو جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں