سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور کاروباری رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کا بلدیاتی بل مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2021
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون نے میئر کو وزیر اعلیٰ کے ماتحت کردیا ہے— فائل فوٹو: بلدیہ عظمیٰ ویٹ سائٹ
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون نے میئر کو وزیر اعلیٰ کے ماتحت کردیا ہے— فائل فوٹو: بلدیہ عظمیٰ ویٹ سائٹ

سیاسی جماعتوں، کاروباری اور صنعتی رہنماؤں، سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی کے اراکین نے حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت سندھ کی جانب سے منظور کروائے گئے بلدیاتی نظام سے متعلق قانون کی مذمت کرتے ہوئے اسے جمہوریت مخالف قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئینی روح سے خود مختار شہر کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کے لیے بلدیاتی حکومت کے نظام کو چلانے کے لیے ایک جامع قانون بنایا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کی منعقد کردہ ’اسٹیک ہولڈرز‘ کانفرنس میں انہوں کو اتفاق کیا کہ حال ہی میں منظور ہونے والے قانون کے تحت تمام بلدیاتی ادارے ’غیر مؤثر‘ ہوجائیں گے اور آئندہ انتخابات صوبے کی تمام جمہوری قوتوں کے لیے غیر متعلقہ ہوں گے۔

اس سلسلے میں کچھ کانفرنس کے کچھ شرکا نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت سے کراچی کا کنٹرول لے لیا جائے۔

مزید پڑھیں: گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

پی ٹی آئی کراچی کے عہدیداران نے سندھ حکومت کی جانب سے اسمبلی میں منظور کروائے گئے بلدیاتی حکومت سے متعلق متنازع بل پر کانفرنس منعقد کی۔

کانفرنس میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی اور سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔

ذرائع کا کہنا تھاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کو کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

کانفرنس کے شرکا نے الزام عائد کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، سندھ کے تمام بلدیاتی اداروں پر قابض ہونا چاہتی ہے جو کہ آرٹیکل کے آئین 140 ’اے‘ سے متضاد ہے۔

متفقہ قرارداد کے بعد کی گئی کانفرنس میں میئر کے براہِ راست انتخابات، صحت، تعلیم اور پولیس محکموں کا انتظامی اور مالیاتی کنٹرول بلدیاتی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کی بلدیاتی انتخابات کیلئے حکومت سندھ کو حتمی مہلت

کانفرنس کے بعد مقامی ہوٹل میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے سندھ حکومت کو خبردار کیا کہ اس سے پہلےکہ صوبے کے شہری برسر اقتدار جماعت کے خلاف سڑکوں پر آجائیں وہ اپنی ’جاگیردارانہ ذہنیت‘ پر نظرثانی کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’کراچی کو اپنے وزیر اعلیٰ سندھ سے اپنے حقوق کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ایک بار پھر یہاں جمع ہوں گے اور اسی فورم پر حکمت عملی تیار کریں گے کیونکہ کسی خاص سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے نظام کا مسئلہ ہے، ہم بیٹھ کر جمہوریت کے نام پر لوگوں یا بلدیاتی انتخابات کا استحصال ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کی منتقلی کا مقصد بلدیاتی حکومت کو ذمہ دار بناتے ہوئے انہیں مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ اچھے نتائج فراہم کر سکیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی قرارداد

دریں اثنا 11 نکات پر مشتمل سندھ حکومت (ترمیمی) بل 2021 کی منظوری کے بعد کانفرنس کے شرکا کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی اور نئے بلدیاتی بل کے خلاف دونوں ایوانوں اور تمام قانونی فورمز پر جدوجہد کا عہد کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی اور سندھ کے عوام الطاف حسین کی سیاست رد کر چکے ہیں، بلاول

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’اس کانفرنس کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی ادارے بشمول محکمہ صحت، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، ماحولیاتی کنٹرول اور تعلیمی ادارے بلدیاتی حکومت کے ماتحت ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح بلدیاتی حکومت کو بااختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے نظام، بلڈنگ کنٹرول منیجمنٹ، واٹر اینڈ سیوریج نظام کو کنٹرول کر سکیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام اضلاع کے منتظمین کو مزید بااختیار کرنا چاہیے تاکہ وہ مقامی حکومت سے متعلق تمام قواعد کا نفاذ کر سکیں۔

کانفرنس سے خطاب میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کو بااختیار اور طاقتور بلدیاتی حکومت کی یقین دہانی کروانے کے باوجود بھی اپنی ’آمرانہ اور جاگیردارانہ‘ ذہنیت واضح کی۔

انہوں نے کہا کہ ’بلدیاتی نظام سے متعلق بل بلدیاتی اداروں کو بے یارو مددگار کردے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر کا سندھ کے بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون نے میئر کو وزیر اعلیٰ کے ماتحت کردیا ہے، اسے پانی کی سپلائی اور صفائی ستھرائی کے اختیارات بھی حاصل نہیں ہوں گے، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ بیان کردہ قواعد کے مطابق وہ پولیس اور ٹرانسپورٹ کے نظام کی دیکھ بھال کر سکتا ہے؟

خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ ’یہ اندھا قانون ہے‘۔

سابق میئر کراچی اور سینئر رہنما ایم کیو ایم وسیم اختر کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور اداروں کو یہ بات سمجھانے 4 سال لگ گئے کہ پیپلز پارٹی ترقی اور کراچی کے مخالفین میں سے ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں