جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بحث کیلئے جے سی پی کا اجلاس 6 جنوری کو ہوگا

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2021
جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی چوتھی سب سے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو پجاب جوڈیشل اکیڈمی
جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی چوتھی سب سے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو پجاب جوڈیشل اکیڈمی

اسلام آباد: نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس 6 جنوری کو ہوگا کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کا نام تجویز کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 9ستمبر کو ایک توسیعی میٹنگ کے دوران اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب جے سی پی ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج کے طور پر جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کی ترقی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوا تھا، جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی چوتھی سب سے سینئر جج ہیں۔

پاکستان بار کونسل(پی بی سی) کے وائس چیئرمین نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس اقدام پر تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا جسے انہوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی ترقی کے لیے سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی کوشش قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا

ایک بیان میں، خوش دل خان نے اس بات پر زور دیا کہ یہ قانونی برادری کا ایک مستقل مؤقف ہے کہ ججز کو تمام عدالتوں میں سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی دی جانی چاہیے اور "چناؤ اور انتخاب" کا رواج بند ہونا چاہیے۔

خوش دل خان کا مؤقف تھا کہ اگر سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی تو ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس کے ساتھ ساتھ قانونی برادری اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔

آٹھ رکنی جوڈیشل کمیشن کے چار ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کو ترقی دینے کی تجویز کی مخالفت کی تھی جب اس کا اجلاس 9 ستمبر کو ہوا تھا، جبکہ اتنی ہی تعداد نے اس ترقی کی حمایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ کے تقرر کا معاملہ: 'تاریخ لکھ لے کون خواتین کے حقوق کیلئے کھڑا نہیں ہوا'

جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود، سابق جج دوست محمد خان اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندے اختر حسین نے اس کی مخالفت جبکہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل (اے جی پی) خالد جاوید خان نے جسٹس عائشہ ملک کی حمایت کی تھی۔

علاوہ ازیں جوڈیشل کمیشن کے ایک اور رکن جسٹس قاضی فائز عیسی– ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے کارروائی میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔

جس وقت 9 ستمبر کو جوڈیشل کمیشن اپنا اجلاس منعقد کر رہا تھا، وکلا نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس بی سی اے) کے قریبی دفتر میں ایک احتجاج اور کنونشن کا اہتمام کیا تھا۔

انہوں نے عدلیہ پر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں جانبداری سے اس کی ساتھ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عائشہ کے سپریم کورٹ میں تقرر پر رضامند

ایک قرارداد کے ذریعے کنونشن نے جوڈیشل کمیشن سے کہا کہ وہ اس وقت تک صوبائی ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں تقرری کے سلسلے میں میں سینیارٹی کے اصولوں کی پابندی کرے جب تک کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تمام سطحوں پر ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن رولز میں مناسب ترامیم اور منصفانہ، شفاف اور معروضی معیار وضع نہیں کیا جاتا۔

تاہم 9 ستمبر کو جے سی پی کی میٹنگ کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے اس واقعہ کو ایک تاریخی دن قرار دیا تھا جب ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ کے لیے نامزد کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں