جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کا سرکاری عہدیداروں کوخط، ‘خفیہ اہلکاروں نے دھمکایا، ہراساں کیا’

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2022
سرینا عیسیٰ نے آئی جی سندھ اور سیکریٹری سے مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا—فائل/فوٹو: اسکرین شاٹ
سرینا عیسیٰ نے آئی جی سندھ اور سیکریٹری سے مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا—فائل/فوٹو: اسکرین شاٹ

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وفاقی و صوبائی سیکریٹریز اور انسپکٹرجنرل پولیس (آئی جی پی) سندھ کو خط لکھا ہے کہ انہیں کراچی میں ‘خفیہ اداروں کے اہلکاروں’ نے ہراساں کیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

سرینا عیسیٰ نے سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، آئی جی سندھ اور سیکریٹری محکمہ داخلہ سندھ کو 31 دسمبر کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ‘کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے میں میرے والدین کا گھر تھا اور ان کا انتقال ہوا تو میرے دو بھائیوں نے مجھے گھر میں حصہ دیا’۔

یہ بھی پڑھیں: ہراساں کیے جانے کے ساتھ میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا جاری ہے، اہلیہ جسٹس عیسیٰ

انہوں نے کہا کہ ‘میں گھر کی مرمت اور تزئین کے لیے کراچی آئی تھی اور 29 دسمبر 2021 کو میں کام کی نگرانی کر رہی تھی کہ دوپہر سوا بارہ بجے دو آدمی میرے گھر میں داخل ہوئے’۔

مذکورہ افراد کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ ‘انہوں بتایا کہ وہ ملیٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) سے تعلق رکھتے ہیں، جس پر میں نے ان سے میرے گھر میں داخل ہونے اور مجھ سے بات کرنے کے لیے دیا گیا تحریری اجازت نامہ دکھانے کا کہا لیکن وہ ایسا نہیں کرپائے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے ان سے وزیٹنگ کارڈز یا ان کے شناختی کارڈز کی کاپیوں کا بھی پوچھا لیکن انہوں نے مجھے نہیں دیا، میرے کہنے پر ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ محمد امجد ہیں لیکن دوسرے نے اپنا نام بتانے سے انکار کیا’۔

سرینا عیسیٰ نے لکھا کہ ‘اہلکاروں نے مجھ سے میرے خاندان سے متعلق پوچھا اور مجھے 4 صفحات پر مشتمل دستاویز پُر کرنے کا کہا، جس میں نہ تو ایم آئی اور نہ ہی کسی اور ادارے کا نام درج تھا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت میرے ساتھ میری بیٹی بھی تھیں، ہم دونوں پریشان اور مضطرب تھے کہ دو افراد میرے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں اور مجھ سے ایسے سوال کرسکتےہیں جیسا کہ میں کوئی مجرم ہوں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے ہراساں کرنے کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ وہ مکمل طور پر پر کیا گیا فارم لینے کے لیے دو دنوں میں واپس آئیں گے’۔

مزید پڑھیں: سرینا عیسیٰ، نظرثانی درخواست سے تین ججوں کے اخراج کی مخالف

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس کی اہلیہ نے بتایا کہ ‘ان لوگوں کے جانے کے فوری بعد ہم لوگ ٹوٹے ہوئے تھے، اسی دوران دو اور لوگ میرے گھر میں داخل ہوئے اور بتایا وہ انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ سے ہیں اور انہیں وزارت داخلہ سے بھیجا گیا ہے’۔

'سنگین نتائج کی دھمکی'

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ‘ان دونوں نے بھی میرے خاندان کے بارے میں سوالات کیے، میں نے ان سے تحریری اختیار، ان کے وزٹنگ کارڈز یا ان کے شناختی کارڈز کی کاپیوں کا تقاضا کیا لیکن انہوں نے مجھے کوئی چیز فراہم کرنے سے انکار کیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ان کے نام پوچھا تو ان میں سے ایک نے بتانے سے انکار کیا اور دوسرے نے اپنا نام انسپکٹر محمد ذیشان کے طور بتایا، ان کے سامنے میں نے ڈی ایچ اے کے ایک سینئر افسر کو فون کیا اور بات کی اور انہیں بتایا کہ میرے گھر میں کیا ہورہا ہے’۔

ڈی ایچ اے کے افسر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ‘انہوں نے آگاہ کیا کہ ڈی ایچ اے، ملیٹری اسٹیٹ آفس اور کینٹونمنٹ بورڈ کو اس طرح کی معلومات درکار نہیں ہوتیں اور ان کو ہم نے نہیں بھیجا ہے’،

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ کے افسر نے ‘مشورہ دیا کہ میں ان سے اصرار کروں کہ وہ مجھے لکھ کر دیں اور جو کچھ وہ جاننا چاہتےہیں اور کیوں وہ باقاعدہ پوچھیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ڈی ایچ اے کے افسر سے ان کی بات کروائی لیکن انہوں نے مجھے معلومات کی کوئی کاغذی نقل فراہم نہیں کی اور انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ آئیں گے’۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ ‘انہوں نے کہا کہ میرےلیے بہتر ہے کہ تمام معلومات فراہم کروں یا نتائج کے لیے تیار رہوں’۔

'ہراساں کرنے اور دھمکانے کے حربےجاری ہیں'

اداروں کو لکھے گئے خط میں انہوں نے بتایا ہے کہ ‘میرے اور میرے خاندان کے خلاف ہراساں کرنے، ڈرانے اور دباؤ میں لانے کے حربے مسلسل آزمائے جارہے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

انہوں نے کہا کہ ‘پہلے ایک ڈوگر تھے جو خود کو آئی ایس آئی کا خود ساختہ ٹاؤٹ کہتے تھے، جس نے مرزا شہزاد اکبر کو لکھا، جو نیب کا سابق ملازم تھا اور انہیں وزیراعظم نے غیرقانونی ایسٹس ریکوری یونٹ (اے آریو) کا چیئرمین تعینات کردیا تھا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘محمد اشفاق احمد کو اے آریو کا رکن چنا گیا اور اس کی مدد سے ایف بی آر میں طلب کرنا شروع کردیا تھا، جنہوں نے بددیانتی سے مجھے اور میرے برسرروزگار بچوں کی جائیداد پر سوالات اٹھانے کی کوشش کی، جو برسوں سے ہمارے نام تھی’۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ ‘میرے شوہر کو بے دخل کرنے کے لیے ان کے خلاف ناکام اور صدارتی ریفرینس دائر کیا تھا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بعدازاں میرے پیچھے اور غیرقانونی طریقے سے محمد اشفاق احمد نے میرے ریجنل ٹیکس افسر (آر ٹی او) کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا’۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘مرزا افتخارالدین نے میرے شوہر کے قتل کے لیے اکسانے کی کوشش کی اور یوٹیوب پر قتل کی دھمکی نشر کی اور میں ذاتی طور پر اسلام آباد میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانہ سیکریٹری گئی اور پولیس کو ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی’۔

'کس قانون کے تحت تفصیلات طلب کی گئیں'

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ ‘یہ ٹرائلز اور دیگر کئی مسائل کا میں نے تنہا سامنا کیا، میرے شوہر نے ایک دفعہ بھی اپنے دفتر سے میری مدد نہیں کی، میری زندگی میں ایک مرتبہ پھر ایک جذباتی اور مشکل وقت ہے، مجھے ہراساں اور دھمکایا جارہا ہے’۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی نظرثانی کیس، 'حکومت کا کیس کالعدم ہوچکا تو حکومتی وکیل کو سننا کیوں ضروری ہے؟'

انہوں نے کہا کہ ‘میرے گھر اور میرے وقار کو توڑا گیا ہے’۔

وفاقی اور صوبائی اداروں کو لکھے گئے 3 صفحات کے خط میں انہوں نے کہا کہ ‘مجھے ایم آئی کی طرف سے دیے گئے دستاویز کے چوتھے صفحے پر مجھ سے جو معلومات طلب کی گئی ہیں، اس میں میری سیاسی وابستگی اور میرے مرحوم والدین، میرے خاندان، میرے کیریئر کا پروفائل، میرے تمام بیرون ملک سفر، ان کا دورانیہ، بیرون ملک موجود میرے خونی رشتہ دار، مسلح افواج میں میرےخونی رشتہ دار، این جی اوز میں میرے رشتہ دار، میرے رابطہ نمبرز، میرا وٹس ایپ نمبر، میری رجسٹرڈ سمز، میرا ای میل ایڈریس، میری سوشل میڈیا میں سرگرمیاں، میرا بینک اکاؤنٹ نمبر اور برانچ کا نام اور میرے خاندان کی تمام تفصیلات بشمول میرے بالغ بچوں کے نام اور پیشہ بھی شامل ہے’۔

انہوں نے سوال کیا کہ ‘مجھے بتایا جائے کہ وزیراعظم اور ان کے وزیرقانون نے آئین کو کب معطل کردیا ہے اور پاکستان کب پولیس اسٹیٹ بن گیا ہے’۔

وفاقی اور صوبائی سیکریٹریز کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ‘کیا آپ مہربانی کرکے اپنے باس کو بتاسکتے ہیں کہ ان کی جانب سے لندن میں خریدی گئی جائیداد انہوں نے نیازی سروسز لمیٹڈ کے نام سے کیوں چھپائی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کس قانون کے تحت اے آر یو تشکیل دیا اور پی ٹی آئی کے سیاسی ورکر کو اس کا سربراہ مقرر کیا اور کیوں سرکاری ملازمین، جیسا کہ محمد اشفاق احمد، مرزا شہزاد اکبر سے احکامات لیتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

سرینا عیسیٰ نے خط میں ‘سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ ’ سے کہا کہ ‘کیا آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ کیوں ان افراد کو بھیجا گیا اور انہیں میرے گھر میں داخل ہونے اور مجھ سےسوالات پوچھنے کا اختیار کس اور کس قانون کے تحت دیا’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘آپ نے مجھے ایک عام سا خط کیوں نہیں بھیجا ان سوالوں کے جواب کے لیے اگر کسی قانون کے تحت اس کی ضرورت تھی بجائے اس کے 4 افراد کو میرے گھر میں داخل ہونے کا کہا گیا، میری پرائیویسی اور وقار توڑا گیا، مجھے ہراساں اور دھماکا گیا’۔

سرینا عیسیٰ نے خط کے آخرمیں کہا کہ ‘آئی جی سندھ، سیکریٹری محکمہ داخلہ حکومت سندھ برائے مہربانی مذکورہ 4 افراد اور ان تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کریں جن کی ہدایات پر انہوں نے عمل کیا’۔

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Kashif Shah Jan 01, 2022 11:45pm
it's just cheap publicity