سپریم کورٹ: جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل مکمل کیے—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل مکمل کیے—فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں زیر سماعت نظرثانی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی اور میرے کیس میں تین از خود نوٹس لیے گئے۔

جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: حکومت چاہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے عدالت سے ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے سے دیا گیا حکم واپس لینے کی استدعا کی۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے سرینا عیسیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی دی ہوئی دستاویزات پڑھ چکے ہیں، مناسب ہوگا مختصر دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر کی رپورٹ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں آئی، عدالتی فیصلے میں کیا غلطی ہے وہ بتائیں۔

سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ میرے بینک اور ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ میرا شوہر تک نہیں لے سکتا، ایف بی آر کی رپورٹ میری اجازت کے بغیر سپریم کورٹ بھی نہیں دیکھ سکتی۔

انہوں نے کہا کہ میری اجازت کے بغیر میرا ٹیکس ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دیکھ سکتی، ٹیکس ریکارڈ میرا اور ایف بی آر کا باہمی معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آدھے سچ پر مبنی رپورٹ کا کچھ حصہ میڈیا کو لیک کیا گیا، فواد چوہدری اور شہزاد اکبر جیسے لوگ ایک لائن پکڑ کر ڈھنڈھورا پیٹیں گے۔

کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برس کے دوران ہزاروں بار مرچکی ہوں، میرے خاوند ایف بی آر کے سامنے ہیں نہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ہوں، سپریم کورٹ سے اپنا حکم واپس لینے کی استدعا کرتی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کیس کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ جج دستاویزات کا جائزہ سائل کی مرضی پر لیں، گزشتہ روز آپ نے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف بی آر کی رپورٹ مانگی تھی، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ پڑھے بغیر ہی واپس کر دی ہے۔

سرینا عیسٰی نے کہا کہ توقع ہے عدالت بھی رپورٹ دیکھے بغیر ہی واپس کرے گی، ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد نے مجھے شنوائی کا موقع نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا مجھے ایف بی آر میں پیش ہونے کا حکم غلط تھا، عدالتی حکم پر ایف بی آر کے سامنے پیش ہوئیں اپنی مرضی سے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں پرانی تمام دستاویزات میرے پاس نہیں، تمام رقم اپنے ہی ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں منتقل کیں، پیسہ اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہو تو وجہ معنی نہیں رکھتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کل کہا تھا کہ آپ کی تنخواہ اور کرائے کو نظر انداز کیا گیا، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ عدالتی حکم کے بعد تھی اس لیے اس کا حوالہ نہ دیں تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست پر ہی فیصلے سے پہلے آپ کو سنا گیا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ٹیکس حکام نے آپ سے تبدیل شدہ مؤقف پر کوئی سوال نہیں پوچھا، اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 17 جون 2020 کو معاملہ ایف بی آر بھجوانے کی میری اہلیہ نے مخالفت کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آپ کی بات حقائق کے منافی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ بات سمجھے بغیر ہی مداخلت کر دیتے ہیں اور ہدایت کی کہ اپنی نشست پر جاکر بیھٹیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سرینا عیسٰی کے خلاف کوئی انکوائری نہیں تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سرینا عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم چیلنج کیا ہے، عدالتی حکم برقرار رہا تو آپ کی ایف بی آر سے شکایات متعلقہ فورم پر ہوگی۔

مزید پڑھیں: نظرثانی کیس: سپریم کورٹ نے براہِ راست کوریج کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آف شور کمپنی کو تسلیم کیا تھا، عمران خان کے لیے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں رکھا گیا حالانکہ عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن میں نہیں ہوں، عمران خان آج وزیراعظم ہیں اور میں ایک عام شہری ہوں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے میرے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیس ایف بی آر کو بھیجا، کسی انفرادی شخص کے خلاف ازخود نوٹس نہیں لیا جا سکتا، از خود نوٹس عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا کیس ایف بی آر کو بھجوانا عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں تھا، میرے خلاف دیا گیا حکم واپس لیا جائے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ کو باقاعدہ سماعت کا موقع فراہم کیا گیا تھا، عدالت بہت سے مقدمات میں باضابطہ فریق بنائے بغیر بھی فریقین کو سنتی ہے، آپ 18 جون 2019 کا اپنا بیان دیکھیں۔

سرینا عیسیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں جج ہوں آپ میرے سوال کا جواب دینے کی پابند ہیں، عدالتی کارروائی آپ نے نہیں ججوں نے چلانی ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کا بنیادی نکتہ ہے کہ آپ کو سماعت کا موقع نہیں ملا، عدالت میں دیا گیا اپنا بیان نہیں پڑھیں گی تو منفی تاثر جائے گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ باضابطہ سماعت ہوئی تو ٹھیک ہے لیکن میری اہلیہ اپنے بیان سے نہیں مکر رہی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت سرینا عیسٰی کی بات سے متفق نہیں تو درخواست خارج کر دے، کل آپ کی بیویاں بھی یہاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی سائل سے قانون کا لیکچر نہیں لے سکتے، آپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جج مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے، آپ عدالت انا چاہتی تھیں لیکن آپ کے شوہر نہیں چاہتے تھے، آپ نے رضاکارانہ طور پر اپنا مؤقف عدالت میں پیش کیا تھا۔

سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اپنے والد کی وجہ سے عدالت آئی تھی، سرینا عیسیٰ اپنے مرحوم والد کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کو کافی سن لیا ہے آپ بیٹھ جائیں اور اس کے ساتھ سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل بھی مکمل کرلیے۔

دلائل مکمل ہوتے ہی جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا مقصد آپ کو اداس کرنا نہیں تھا۔

جج بننے سے پہلے 31 لاکھ روپے ماہانہ کماتا تھا، جسٹس قاضی فائز

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج بنا تو دو لاکھ سے زائد تنخواہ بنی اس سے پہلے 31 لاکھ روپے ماہانہ کماتا تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت کے مطابق تو میں آج بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوں، میرے کیس میں ایک نہیں تین از خود نوٹس لیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلا سو موٹو لے کر میری اہلیہ اور بچوں کو فریق بنایا گیا، دوسرے سو موٹو میں کیس ایف بی آر کو بھجوایا گیا اور تیسرے سو موٹو میں سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ کا جائزہ لینے کا کہا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ باقی نکات اپنے جواب الجواب میں دوں گا۔

جسٹس عمرعطابندیال نے سوال کیا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے کو کس بنیاد پر غلط کہہ رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ملک بنانے والوں میں سے ہیں اس کے لیے جان بھی دیں گے، صرف ملک اور عدلیہ کے لیے جذباتی ہوتا ہوں، عدلیہ اور آئین کا آخر تک محافظ رہوں گا، ایف بی آر شہزاد اکبر اور جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ملکیت ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میرے کیس میں ایف بی آر کے دو چیئرمینز کو ہٹا دیا گیا، 12 مئی کے واقعے پر تحقیقات ہوتیں تو آج ذمہ دار دبئی میں نہ ہوتا، فروغ نسیم اور انور منصور ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے رہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا واحد دفاع ہے کہ اہلیہ کے اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کہتے تھے کہ اہلیہ کے اثاثوں کا انہیں سے پوچھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی، جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے انہیں کہا کہ سوالات سے آپ پریشان ہوتے ہیں اس پر معذرت خواہ ہوں، آپ کی بات ماننے کے لیے قانونی راستہ آپ کی اہلیہ کے ذریعے بنتا ہے، آپ کی اہلیہ نے بہت سے ٹھوس پوائنٹ اٹھائے ہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ خود کو بری کرنا ہے تو صاف کہیں لندن جائیدادوں میں آپ کا پیسہ شامل نہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ مجھے پہلے ہی بری کر چکے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کی اہلیہ آپ کی وجہ سے ہی عدالت میں ہیں، آئندہ کوئی بھی اپنی اہلیہ سے پوچھے بغیر جج نہ بنے، آپ کو بتانا ہو گا کہ اکاؤنٹ سے ہونے والے اخراجات سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ رقم منتقل کرنے کے اکاؤنٹ سے آپ کا تعلق نہیں، اکاؤنٹ کی مکمل تفصیل ریکارڈ پر موجود ہے، صرف آپ نہیں ہم بھی اللہ کو جوابدہ ہیں، آپ نے سارے جہاں کے خلاف باتیں کیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روزانہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے غلط فیصلہ نہ کروائے، اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے عدالت نہیں حکومت کے خلاف باتیں کی ہیں، جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ حکومت کو کچھ کہنا ہے تو باہر جاکر کہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ معذرت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، ہماری ایک ملاقات بھی ہوئی تھی، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باہر کی باتیں نہ کریں لوگ غلط سمجھیں گے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ جذباتی ہوتے ہیں لیکن میں ابھی تک خاموش ہوں، جو پوچھا جائے کل سوچ کر اس کا جواب دیں۔

جس کے بعد کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے۔

مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں