مسلم لیگ(ن) کا چیئرمین نیب اور شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 10 فروری 2022
مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی رپیس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی رپیس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین نیب اور وزیراعظم کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اپنی کابینہ کی ٹیبل سے تفتیش شروع کریں، وہاں انہیں کرپشن کے بڑے بڑے سورما ملیں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں کچھ حقائق سامنے آئے اور اس ملک میں جاری نام نہاد احتساب کے عمل کے حوالے سے آپ کے سامنے حقائق رکھنا ضروری تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی صورت میں نازل عذاب سے جان چھڑانا سیاسی جماعتوں کا فرض ہے، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ یہ کاروائیاں کسی اور کے خلاف نہیں بلکہ اس ملک کے قائد حزب اختلاف کے خلاف کی گئیں، جس طرح ان کی ہتک کی گئی اس کا ان سب حضرات کو ایک نہ ایک دن جواب دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف 10سال پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے اور صوبے کو نئی ترقیوں سے روشناس کرایا جبکہ نواز شریف پر کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکا، کوئی افسر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے عہدے پر تقرری کے لیے پیسے دیے لیکن آج لوگ پیسے دے کر نوکریوں پر جاتے ہیں البتہ شہباز شریف پر ایسا الزام نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر صحافی کے خلاف برطانوی عدالت میں گئے جہاں عدالت نے ان الزامات کو سنگین ہتک عزت قرار دیا اور ڈیلی میل پانچ پیشیاں گزرنے کے باوجود اب تک یہ ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ یہ الزامات کس بنیاد پر لگائے گئے۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ 9 دسمبر 2019 کو نیب کے شہزاد سلیم برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ شہباز شریف عرصے سے کرپشن کررہے ہیں اور ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے نیشنل کرائم ایجنسی کو مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی کرائم ایجنسی نے بتایا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ اور نیب کے دعوؤں کی بنیاد پر ہم یہ تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ شہباز شریف نے کوئی کرپشن یا عہدے کا غلط استعمال کیا ہے یا نہیں اور انہوں نے تمام اکاؤنٹ منجمد کرنے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے دو سال دبئی اور پاکستان میں ہر پہلو سے تحقیقات جاری رکھیں اور نومبر 2021 میں برطانوی ایجنسی نے عدالت میں بیان دیا کہ ہم نے دو سال شہباز شریف، ان کے بیٹے اور پورے خاندان کے خلاف تحقیقات کی ہیں اور ہم نے 15سال کے شہباز شریف کے اثاثے اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی تحقیق کی ہے، ایجنسی نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف جرم کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کے سابق مشیر شہزاد اکبر اور چیئرمین نیب کو کہا ہے کہ اپنے عہدے چھوڑنے سے پہلے پاکستان کے عوام کے سامنے اپنے اثاثے ثابت کر کے جائیں کیونکہ اگر کل آپ کی کرپشن سامنے آئے گی تو آپ کو جواب دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیب اور ایسٹ ریکوری یونٹ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو بتائیں کہ شہباز شریف کے خلاف ان تحقیقات پر آپ نے کتنے پیسے خرچ کیے ہیں، کیا یہ پاکستان کے عوام کے نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے دفتر کو کوئی حق نہیں کہ وہ نیب اور ایف آئی اے کے کام میں مداخلت کرے لیکن یہاں ان کے مشیر اور ان کے دفتر میں بیٹھنے والے لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم احتساب کر رہے ہیں، ہم نیب اور ایف آئی اے چلا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ وجہ سامنے آگئی

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ اگر وزیراعظم کو تفتیش کرنی ہے تو کابینہ کی ٹیبل سے شروع کریں، وہاں انہیں کرپشن کے بڑے بڑے سورما ملیں گے، یہ آج اس ملک کے نام نہاد احتساب کے حالات ہیں۔

انہوں نے چیئرمین نیب اور وزیراعظم کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے جو تماشا لگایا ہوا ہے اس کے لیے انہیں کل جوابدہ ہونا پڑے گا کہ آپ نے کس کے حکم پر جعلی مقدمے بنائے تھے۔

بہترین کارکردگی دکھانے والے وزرا میں اسناد کی تقسیم کے حوالے سے سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے سارے اہم محکمے فیل ہو گئے، یہ تمغے نہیں ہیں بلکہ 10 بہترین کارکردگی دکھانے والے ہیں، ناکام سب ہوئے ہیں لیکن یہ دس تھوڑا کم فیل ہو گئے، جس ملک کا وزیراعظم ہی فیل ہو تو اس کے ساتھ سارے بچے بھی فیل ہی ہوں گے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری رائے میں مسلم لیگ(ن) کسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہو گی، تحریک عدم اعتماد کے بعد ایک حکومت بن سکتی ہے یا الیکشن ہو سکتے ہیں، ہماری رائے یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد الیکشن ہونے چاہئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں