اسرائیلی صدر کا ترکی کے غیر معمولی دورے کا منصوبہ

16 فروری 2022
ترک امور کی ماہر گلیا لنڈنسٹراؤس نے کہا کہ اسرائیلی صدر کی میزبانی طیب اردوان کے لیے یوٹرن کے مترادف ہے — فوٹو: رائٹرز
ترک امور کی ماہر گلیا لنڈنسٹراؤس نے کہا کہ اسرائیلی صدر کی میزبانی طیب اردوان کے لیے یوٹرن کے مترادف ہے — فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر آئزک ہرزوگ ترکی کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد برف پگھلنے کی تازہ ترین علامت کے طور پر نایاب دورہ ہوگا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کا رواں ہفتے اسرائیل کا دورہ متوقع ہے، جس میں صدر رجب طیب اردوان کے معاون اعلیٰ ابراہیم قالن اور نائب وزیر خارجہ سعادت اونال شامل ہیں۔

اسرائیلی ایوان صدر نے کہا کہ ترک وفد کا دورہ صدر آئزک ہرزوگ کے ترکی کے متوقع دورے کی تیاریوں کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کیلئے فلسطینیوں کی حمایت ترک نہیں کریں گے، ترکی

گزشتہ ماہ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ترک صدر نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی ہم منصب کے دورے کی امید رکھتے ہیں، انہوں نے اس دورے کو ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں ایک نیا باب کھلنے کے موقع کے طور پر سراہا تھا۔

اسرائیلی صدر کے دفتر نے منگل کو جاری ہونے والے اس بیان سے قبل متوقع دورے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مذکورہ بیان میں بھی متوقع دورے کی ممکنہ تاریخ کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا، تاہم ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن 'ٹی آر ٹی' نے بتایا کہ یہ دورہ 9 اور 10 مارچ کو ہوگا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی صدر مارچ میں ترکی کا دورہ کریں گے، طیب اردوان

واضح رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات 2010 میں غزہ کی پٹی کے لیے امداد لے جانے والے ترک بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے کشیدہ ہوگئے تھے۔

تاہم حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کے لیے سرگرم نظر آرہے ہیں، فلسطینی کاز کے بھرپور حامی ترک صدر رجب طیب اردوان، اسرائیلی صدر اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطے کر رہے ہیں۔

’اسرائیلی صدر کی میزبانی، طیب اردوان کیلئے یوٹرن کے مترادف ہے‘

تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز میں ترک امور کی ماہر گلیا لنڈنسٹراؤس نے کہا کہ اسرائیلی صدر کی میزبانی طیب اردوان کے لیے یوٹرن کے مترادف ہے، کیونکہ فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی اب بھی نہیں آئی ہے۔

گلیا لنڈنسٹراؤس اور دیگر تجزیہ کار دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اس گرمجوشی کو کسی حد تک اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جون میں عہدے سے برطرفی سے جوڑتے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق اسرائیلی صدر اور رجب طیب اردوان کے درمیان تعلقات ان کے طویل دور حکومت کے دوران تلخ ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے تیار ہیں، رجب طیب اردوان

گلیا نے گزشتہ ہفتے 'اے ایف پی' کو بتایا تھا کہ ’میرے خیال میں نیتن یاہو کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد اسرائیل میں نئی حکومت کی تشکیل کو ایک نئے موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘

نیتن یاہو کی جگہ ایک نظریاتی طور پر متنوع اسرائیلی اتحاد نے لے لی ہے جس کی سربراہی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کر رہے تھے جو فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں۔

گلیا نے مزید کہا کہ اسرائیل کی وسطی بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کے سابق سربراہ آئزک ہرزوگ کو فلسطین معاملے پر زیادہ اعتدال پسند سمجھا جاتا ہے، اس لیے رجب طیب اردوان کے نزدیک وہ معاملات طے کرنے کے لیے نسبتاً آسان شخص ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل 'دہشت گرد' ریاست ہے، طیب اردوان

رواں ہفتے وفد کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک ترک بیان میں کہا گیا تھا کہ ابراہیم قالن اور سعادت اونال فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کریں گے جو مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔

ترکی کے فلسطین کی اسلامی تحریک 'حماس' کے ساتھ بھی تعلقات ہیں جو غزہ کو کنٹرول کرتی ہے۔

گلیا نے کہا کہ اسرائیل ممکنہ طور پر ترکی کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات کی شرط کے طور پر ترک سرزمین پر حماس کی لاجسٹک اور فوجی منصوبہ بندی کو ختم کروانے کی کوشش کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے دو سال بعد اسرائیل کیلئے اپنا سفیر مقرر کردیا

ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف بھی اسرائیل اپنی سفارتی کوششیں تیز کر رہا ہے کیونکہ عالمی طاقتیں تہران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی اسرائیل سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

گلیا لنڈنسٹراؤس نے کہا کہ ترکی کی جانب سے ایران کے خلاف کوئی بھی تعاون اسرائیل کے لیے بڑی نعمت ثابت ہوگا، تاہم ان کا خیال ہے کہ انقرہ اور تہران کے درمیان قریبی اور پیچیدہ تعلقات کے پیش نظر ایسا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں