سعودی عرب: ریل ڈرائیور کی 30 آسامیوں کیلئے 28 ہزار خواتین امیدوار

17 فروری 2022
ہسپانوی کمپنی کا کہنا ہے سعودی عرب میں خواتین کو روزگار کے مواقع دینے کے لیے پرعزم ہیں—فوٹو:بشکریہ سعودی گزٹ
ہسپانوی کمپنی کا کہنا ہے سعودی عرب میں خواتین کو روزگار کے مواقع دینے کے لیے پرعزم ہیں—فوٹو:بشکریہ سعودی گزٹ

سعودی عرب کی کمپنی نے کہا ہے کہ ریل کے 30 ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے 28 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق اسپین کی ریل کمپنی رنفے کا کہنا تھا کہ آن لائن جائزے کے دوران تعلیمی پس منظر اور انگریزی زبان کے اسکل کے حوالے سے امیدواروں کی تعداد تقریباً نصف ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں فوجی خواتین کا پہلا ونگ کھول دیا گیا

انہوں نے کہ دیگر امیدواروں کے لیے کام کا آغاز مارچ کے وسط میں شروع ہوگا۔

بیان میں کہا گیا کہ کامیاب امیدوار ایک سالہ تربیت کے بعد مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہائی اسپیڈ ریل چلائیں گی۔

خیال رہے کہ سعودی میں پہلی مرتبہ خواتین کی ملازمت کے لیے اس طرح کا اشتہار دیا گیا ہے۔

رینفے کا کہنا تھا کہ کمپنی مقامی کاروبار میں خواتین کے لیے مواقع پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس وقت سعودی عرب میں ان کمپنی کی ریل چلانے والے 80 ڈرائیور مرد ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ مزید 50 افراد زیرتربیت ہیں۔

خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں دفاتر میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سعودی معیشت کو تیل کے انحصار سے نکالنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

سعودی عرب میں دیگر کئی سماجی اصلاحات کی گئی ہیں، جن میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کا خاتمہ اور خواتین کو آزادانہ سفر کرنے کے لیے مرد سرپرست کا ساتھ ہونے کی شرط میں نرمی کرنا بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب خواتین کو بااختیار بنانے میں پاکستان و بھارت سے بھی آگے

محمد بن سلمان کے ان اصلاحات کے نتیجے میں کام کے جگہوں پر خواتین کی شراکت پہلے سے دوگنا ہوگئی ہے اور گزشتہ 5 برسوں میں تعداد تقریباً 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ برس کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین برسرروزگار ہوئیں۔

امریکا کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس حوالے سے گزشتہ برس جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب میں تاحال خواتین کے مقابلے میں برسرروزگار مردوں کی تعداد زیادہ ہے اور خاص کر سرکاری دفاتر میں یہ تعداد مزید زیادہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں