امریکی حکام نے 'تاریخی کمزوری' پر جرمانہ عائد کیا، نظام میں بہتری آئی ہے، نیشنل بینک

اپ ڈیٹ 25 فروری 2022
صدر عارف عثمانی نے کہا کہ نیشنل بینک نیویارک برانچ ریگولیٹرز کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے پرعزم ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
صدر عارف عثمانی نے کہا کہ نیشنل بینک نیویارک برانچ ریگولیٹرز کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے پرعزم ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے صدر عارف عثمانی نے امریکا کی جانب سے سرکاری بینک پر 5 کروڑ 54 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمانہ ’قواعد کی تکمیل کے پروگرام میں کمزوری اور اس سے متعلق اصلاحات میں تاخیر کے سبب کیا گیا ہے'۔

این بی پی کے صدر کا کہنا تھا کہ بینک کی نئی انتظامیہ کے تحت نظام میں بہتری آئی ہے۔

اس سلسلے میں نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو خط لکھا ہے۔

خط میں امریکی قوانین پر عمل نہ ہونے پر نیشنل بینک پر 5 کروڑ 54 لاکھ ڈالر جرمانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’تحقیقات میں غلط ٹرانزیکشن یا دانستہ بدانتظامی ثابت نہیں ہوئی'-

امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ نے اینٹی منی لانڈرنگ کی خلاف ورزیوں پر بینک پر 2 کروڑ 4 لاکھ ڈالر جرمانے کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے نیشنل بینک پر کروڑوں ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا

بورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق بینک کو اپنے انسداد منی لانڈرنگ پروگرام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ این بی پی کے امریکی بینکاری نظام میں ’منی لانڈرنگ کے قوانین کی تعمیل کرنے کے لیے کوئی مؤثر رسک مینجمنٹ پروگرام یا کنٹرولر سسٹم موجود نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل بینک کا وفاقی ذخائر بورڈ اور وفاقی ذخائر بینک نیویارک سے معاہدہ طے پایا اور نیویارک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز (این وائی ڈی ایف ایس) بھی بطور ریگولیٹر معاہدے میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین کی عدم تکمیل کا عمل بارہاں دہرانے پر 'این وائی ڈی ایف ایس' نے 3 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

این وائی ڈی ایف ایس کے سپرنٹنڈنٹ ایڈرینی اے ہیرس نے اعلان کیا ہے کہ نیشنل بینک اور اس کی نیویارک برانچ جرمانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل بینک کے صدر، چیئرمین کو عہدوں پر بحال کردیا

ایڈرینی اے ہیرس کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ این بی پی کی نیو یارک برانچ نے بار بار ریگولیٹری کی تنبیہ کے باوجود بھی سالوں تک قوانین کی سنگین خامیوں کو برقرار رکھا۔

صدر این بی پی نے کہا کہ بینک، ماضی میں امریکی قوانین پر عمل درآمد میں تاخیر کا مرتکب ہوا تھا جبکہ مئی 2020 سے بینک، نیویارک برانچ کی نئی انتظامیہ کے تحت کام کر رہا ہے۔

نیشنل بینک کے صدر کا کہنا تھا کہ متعلقہ قوانین پر عمل درآمد میں بہتری آئی ہے تاہم امریکی ریگولیٹرز نے بھی بہت سی مثبت تبدیلیوں کو سراہا ہے۔

صدر عارف عثمانی نے کہا کہ نیشنل بینک، نیویارک برانچ ریگولیٹرز کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے پُرعزم ہے۔

نیشنل بینک کے شیئرز

جمعے کی نماز کے وقفے تک کاروباری روز کے دوران بینک کے شیئرز میں 7.2 فیصد کمی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل بینک پر ہونے والے سائبر حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے

حکومت، این بی پی کے 75.2 فیصد شیئرز کی مالک ہے جبکہ یہ ملک کا سب سے بڑا کمرشل بینک ہے۔

انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف غیر مؤثر کارروائیوں کے پیش نظر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے جون 2018 میں پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ میں شامل کردیا تھا۔

عارف حبیب لمیٹڈ میں تحقیق کے سربراہ طاہر عباس نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ہم ایف اے ٹی ایف کے جائزے پر اس جرمانے کے نمایاں اثرات کا اندازہ نہیں لگا سکتے، تاہم پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنے کی توقع برقرار ہے۔

این وائی ڈی ایف ایس کے ساتھ تصفیہ

نیو یارک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ برائے مالیاتی خدمات کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تصفیے کے تحت این بی پی بینک کو بی ایس اے / اے ایم ایل پروگرام کی تعمیل کی پالیسیوں اور طریقہ کو بہتر کرنے کے حوالے سے تفصیلی تحریری منصوبہ پیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل بینک کے سابق صدر کی عہدے پر بحالی کی درخواست مسترد

علاوہ ازیں بیان میں این وائی ڈی ایف سی نے تسلیم کیا ہے کی اصلاحی کوششوں اور تحقیقات میں بینک انتظامیہ تعاون کر رہی ہے۔

یاد رہے گزشتہ سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے نیشنل بینک پر اے ایم ایل، اثاثوں کے معیار، فارن ایکسچینج اور جنرل بینکنگ آپریشنز (جی پی او) سے متعلق ریگولیٹری ہدایات کی خلاف ورزی پر 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

2015 میں این بی پی نے نیویارک برانچ میں امریکی پابندیوں کے نظام کی خلاف ورزیوں پر امریکی خزانے کو 28 ہزار 800 ڈالر کا جرمانہ ادا کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں