اسلام آباد پولیس کے قبضے میں 900 لاوارث گاڑیاں ہونے کا انکشاف

28 فروری 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاوارث اور ٹیمپرڈ گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی— فائل/فوٹو:ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاوارث اور ٹیمپرڈ گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی— فائل/فوٹو:ڈان

اسلام آباد پولیس نے 900 سے زائد ٹیمپرڈ اور لاوارث گاڑیوں کو ’غیرقانونی‘ طور پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ یہ بات پولیس لیگل ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی جانے والی رپورٹ میں سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ یہ گاڑیاں پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے زیراستعمال تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاوارث اور ٹیمپرڈ گاڑیوں کے استعمال سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی۔

کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 524 کے مطابق پولیس ان گاڑیوں کو ضبط کرنے کے بعد 6 مہینے میں ان کی نیلامی کرنے کی پابند ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی سے چوری کی گئی گاڑیاں بلوچستان میں فروخت ہونے کا انکشاف

سیکشن کے مطابق ایسی املاک پر اگر کوئی شخص 6 ماہ کے اندر اپنا دعویٰ نہیں کرتا اور اگر وہ شخص جس کے قبضے میں ایسی املاک پائی گئی ہے، یہ ظاہر کرنے سے قاصر ہے کہ یہ اس نے قانونی طور پر حاصل کی ہے تو ایسی املاک صوبائی حکومت کے اختیار میں ہوگی اور اسے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے حکم کے تحت فروخت کیا جا سکتا ہے۔

غیر قانونی طور پر رکھی گئی گاڑیوں کے بارے میں انکشاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی زیرسماعت ایک درخواست پر سامنے آیا۔

مذکورہ درخواست شیر عالم کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں ایک گاڑی کی سپر داری کی استدعا کی گئی تھی۔

ڈپٹی سپرنڈنٹ آف پولیس (لیگل)ساجد چیمہ نے کہا کہ سیکسشن 524 سی آر پی سی کے مطابق ٹیمپرڈ اور لاوارث گاڑیوں کی 6 ماہ میں نیلامی کرنا لازم ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس کا چھینی گئی گاڑیوں کی آن لائن فروخت میں ملوث گینگ گرفتار کرنے کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد پولیس کے قبضے میں ایسی 900 گاڑیاں موجود ہیں جنہیں نیلام ہونا ہے، تاہم وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ آخری مرتبہ نیلامی کب کی گئی تھی۔

جسٹس جہانگیری نے عہدیدار کو ہدایت کی کہ وہ 2 ہفتوں کے اندر ایک جامع رپورٹ پیش کریں جس میں بتایا جائے کہ کتنی ٹیمپرڈ اور لاوارث گاڑیاں/موٹرسائیکلیں پولیس کی تحویل میں ہیں اور یہ گاڑیاں/موٹر سائیکلیں کس کے زیراستعمال ہیں اور کس اتھارٹی کے تحت استعمال کی جا رہی ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ آخری بار کب نیلامی ہوئی تھی اور 6 ماہ کے مخصوص دورانیے میں نیلامی نہ کروا کر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی خزانے کا نقصان کروانے کا کون ذمہ دار ہے؟

اس سے قبل درخواست گزار نے سپرداری کے لیے سول جج سے اپیل کی تھی،سول جج کی جانب سے درخواست مسترد ہونے کے بعد درخواست گزار نے فیصلہ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے سامنے چیلنج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اگست میں گاڑیوں کی فروخت میں 93 فیصد اضافہ ہوا

ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کی جانب سے بھی درخواست مسترد ہونے کے بعد درخواست گزار شیر عالم نےاسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے سامنے درخواست گزار نے استدلال کیا کہ وہ مذکورہ گاڑی کا حقیقی خریدار تھا اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس (ای ٹی او)کے ریکارڈ کے مطابق حضرت گل اس کے رجسٹرڈ مالک تھے۔

حضرت گل نے کہا کہ درخواست گزار کو سپرداری پر گاڑی جاری کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

تاہم پولیس درخواست گزار کو گاڑی دینے سے گریزاں تھی۔

ماضی میں لاوارث گاڑیاں مقامی انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں، پولیس اور عدلیہ میں تقسیم کیےجانے کی روایت رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2012 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، چیف کمشنر اور انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان ججز، مقامی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے غیر قانونی طور پر پولیس سے سپرداری پر لاوارث کاریں حاصل کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں