حکومت، آئل انڈسٹری کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے فرق پر عدم اتفاق

03 مارچ 2022
آئل انڈسٹری اور حکومت کے درمیان میٹنگ بے نتیجہ رہی— فائل فوٹو: اے ایف پی
آئل انڈسٹری اور حکومت کے درمیان میٹنگ بے نتیجہ رہی— فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کے حالیہ اعلان سے پیدا ہونے والے قیمتوں کے فرق کی ادائیگی کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں حکومت اور آئل انڈسٹری ناکام رہی، جس سے مصنوعات کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئل انڈسٹری اور متعلقہ حکومتی اسٹیک ہولڈرز آنے والے کٹائی کے مہینوں (مارچ سے جون) کے دوران تیل کی درآمد کے لیے زرمبادلہ کی کمی کے باعث بینکوں کی تیل کے درآمد کنندگان کے لیے قرض کی حد بڑھانے میں ہچکچاہٹ اور گزشتہ قیمتوں کے فرق کے دعووں (پی ڈی سی) پر حکومت کی جانب سے فنڈز کی منظوری نہ ملنے پر سپلائی چین میں رکاوٹوں کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔

آئل مارکیٹنگ کمپنیز (او ایم سیز) 3.65 روپے فی لیٹر منافع کی حقدار ہیں جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) پر قیمت کے فرق کا دعویٰ تقریباً 2.28 روپے فی لیٹر ہے، جس سے ان کے لیے اپنے ورکنگ کیپیٹل کی مالی معاونت کے لیے محدود جگہ رہ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئل کمپنیوں نے حکومت، اوگرا کو ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قلت کے خدشے سے خبردار کر دیا

آئل انڈسٹری نے حکومت کو مطلع کیا کہ ان کے لیے منفی مارجن اور مالی رکاوٹوں کے ساتھ سپلائی چین کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

آئل انڈسٹری کی جانب سے مدد کی اپیل کے پیش نظر، حکومت نے گزشتہ روز آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین اور سیکریٹری پیٹرولیم کے ساتھ تیل کی صنعت کے نمائندوں کی میٹنگ کا اہتمام کیا۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر پیٹرولیم ڈویژن نے 28 فروری کو بتایا کہ مارچ سےجون کے دوران ملک میں آئندہ فصل کی کٹائی کے سیزن میں ڈیزل کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا کافی ذخیرہ موجود ہونا ضروری ہوگا۔

تاہم آئل انڈسٹری اور حکومت کے درمیان یہ میٹنگ بے نتیجہ رہی، حکومت کی جانب سے آئل انڈسٹری سے کہا گیا کہ وہ اپنی تجاویز پیش کریں۔

مزید پڑھیں: ریفائنریز کی بندش: ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خطرہ

تاہم آئل انڈسٹری سے وعدہ کیا گیا کہ ان کی تجاویز کو فوری طور پر وزارت خزانہ کے سامنے اٹھایا جائے گا اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے منظوری لینے سے پہلے (او ایم سیز) کے ساتھ ایک حتمی طریقہ کار طے کیا جائے گا۔

پٹرولیم ڈویژن اور اوگرا، دونوں کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے سے ایک دوسرے کو خطوط لکھ کر ڈیزل کی ممکنہ قلت سے خبردار کیا جاتا رہا۔

اپنے مالی چیلنجز کی بنیاد پر، آئل انڈسٹری نے حکومت سے پوچھا کہ وہ سپلائی چین کو کیسے یقینی بنائیں گے جب کہ 2009 کے بعد سے ان کے پی ڈی سی کے بقایا جات ابھی باقی ہیں اور نومبر کے پہلے 4 دنوں میں مزید بڑھ گئے جب وزیر اعظم نے قیمتوں میں اضافے میں تاخیر کی۔

انہوں نے ایک ممکنہ حل تجویز کیا کہ ایک فاسٹ ٹریک میکانزم قائم کیا جائے جو قیمتوں کے تعین کے پہلے 15 روز مکمل ہونے کے فوراً بعد ادائیگیوں کو یقینی بنائے۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول بحران: وزیر اعظم کاتحقیقات کا حکم

انڈسٹری نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی، زیادہ درآمدی پریمیئم اور تقریباً ایک کھرب 30 ارب روپے کے گردشی قرضے کی وجہ سے انہیں پہلے ہی مالیاتی مسائل کا سامنا ہے۔

بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنانے اور ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لیے، انڈسٹری نے پہلے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے درخواست کی کہ وہ ان کے کریڈٹ کو بڑھانے میں تعاون کرے۔

مزید برآں جولائی تک قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پیٹرول کے لیے پی ڈی سی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا، کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں حالیہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مقامی صارفین کے لیے قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے ساتھ موافق نہیں ہیں اور پی ڈی سی نظام جاری رکھا گیا، تو یہ صنعت برقرار نہیں رہ سکے گی اور اس کی وجہ سے سپلائی چین میں شدید خلل پڑے گا۔

مزید پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

اس کے علاوہ آنے والے فصل کی کٹائی کے سیزن کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی کمی کا ایسا سنگین بحران پیدا ہو جائے گا جس کا جون 2020 میں سامنا کرنا پڑا تھا۔

آئل انڈسٹری نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ متعدد کمپنیوں کے کاروبار کے تسلسل پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قلت سے بچنے کے لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ پی ڈی سی کو فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظرثانی کرکے ختم کیا جائے یا متبادل طور پر سبسڈی کا طریقہ کار قائم کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں