ندیم افضل چن کا دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2022
ندیم افضل چن نے کہا کہ آج میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں—فوٹو:ڈان
ندیم افضل چن نے کہا کہ آج میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں—فوٹو:ڈان

وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ندیم افضل چن تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ کر دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔

بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہمراہ لاہور میں ندیم افضل چن کے گھر پہنچے جہاں ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کے ہمرا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ آج سے 20/22 سال پہلے میں نے پاکستان پیپلزپارٹی سے سیاست شروع کی تھی، لیکن فیملی اور کچھ دیگر مجبوریوں کی وجہ سے مجھے ایک غلط فیصلہ کرنا پڑا جس کا میں اعتراف کرتا رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب جب میرے گھر آئے تھے تو میں نے ان کو بھی کہا تھا کہ میں آج بھی بھٹو والا ہوں اور کل بھی بھٹو والا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کے منصوبے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس بند کرنے کا فیصلہ

انہوں نے پیپلزپارٹی میں اپنی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں جس پر مجھے انتہائی خوشی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے عزت دی۔

وزیر اعظم کو اعتماد ہے تو اسمبلی توڑ کر عوام میں آئیں، بلاول

اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ندیم افضل چن صاحب کو پی پی میں واپس آنے پر خوش آمدید کہتا ہوں، ان کی واپسی پوری پیپلزپارٹی کے لیے خوشخبری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں موجود وہ تمام افراد جو ماضی میں پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں ان سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور پیپلزپارٹی کا حصہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم 7/8 دن سے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، اس وقت ندیم افضل چن صاحب کا ہمارے قافلے کا حصہ بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام موجودہ مسائل سے نمٹنے کی جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن ہونے چاہیے تاکہ ایک عوامی حکومت قائم ہو جو ان مسائل کا حل کرسکے، ان شا اللہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور کامیاب ہوں گے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان یوٹرن لینے کے عادی ہیں لیکن ہم یوٹرن نہیں لیتے، ہماری اپوزیشن کے نتیجے میں حکومت پریشر میں ہے جس کا سامنا حکومت کو اس سے پہلے کبھی نہیں رہا ہے، ہم پہلے بھی سینیٹ میں حکومت کو شکست دے چکے ہیں اور آئندہ بھی شکست دیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ تحریک عدم اعمتاد آنے سے پہلے وزیراعظم کو خود مستعفی ہوجانا چاہیے، وہ پہلے بھی بہت بار اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے چکے ہیں، اگر انہیں عوام پر اعتماد ہے تو اسمبلی توڑ کر عوام میں آئیں اور ہمارا مقابلہ کریں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اپوزیشن کی تیاری جاری ہے، ہم اسلام آباد پہنچ کر تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں گے اور ان شااللہ کامیاب بھی ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ’اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا‘

انہوں نے کہا کہ کارکنان کو موبلائز کرنامشکل فیصلہ تھا، ہمارے ساتھ آنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنا دیرینہ مطالبہ تھا لیکن یہ حکومت کی خوش نصیبی تھی کہ کورونا اور لاک ڈاون کی وجہ سے ہم یہ محنت پہلے نہیں شروع کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی کا موقف پہلے دن سے یہی رہا کہ دونوں محاذوں پر حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیے، یہ ایک جعلی اکثریت ہے جسے مسلط کیا گیا ہے۔

’تحریک عدم اعتماد مشکل ٹاسک ہے‘

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد مشکل ٹاسک ہے، لیکن ہمیں کوشش اور محنت کرنی ہے کیونکہ ملک کو اس کی ضرورت ہے، اس بحران سے نکلنے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم میں کامیابی کی 100 فیصد گارنٹی نہیں دے سکتا، لیکن 100 فیصد گارنٹی کا انتظار کرتے رہیں گے تو یہ ظلم جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہار جیت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن عوام کو نظرآرہا ہے کہ جتنا میرے بس میں ہے میں کوشش کررہا ہوں، تحریک عدم اعتماد میں ناکام بھی ہوئے تو چین سے گھر نہیں بیٹھیں گے، ان کے پیچھے لگے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم

بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی نیوٹرل نہیں رہی، اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا امتحان چند دنوں میں آنے والا ہے۔

(ن)لیگ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں آپس میں لڑوانے کی کوشش نہ کریں، اس وقت ہم ایک بڑے مقصد کےلئے باہر نکلے ہیں، پی پی کے علاوہ کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جس پر سلیکٹد ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

انہوں نے کہا ک ہمارا ارادہ جمہوری طریقے سے تحریک عدم اعتماد لانا ہے، اگر حکومت تحریک عدم اعتماد کو سبوتاژ کرنے کے لیے کسی غیرجمہوری طریقے سے رکاوٹ نہیں بنتی تو ہم بھی کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہ اس ساری جدوجہد میں حکومتی اتحادیوں کا رول انتہائی اہم ہے، جو لوگ ہم سے رابطہ کررہے ہیں ان کے ساتھ بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں