'وزیر اعظم کے مشیر غلط بیانی سے حکومت، میڈیا کے درمیان خلیج حائل کر رہے ہیں'

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2022
اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما پرویز الہیٰ  نےچند اخبار اور میڈیا ہاوسز کے اشتہارات بند کرنے کی اطلاعات 
پر  اظہار تشویش کیاہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز
اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما پرویز الہیٰ نےچند اخبار اور میڈیا ہاوسز کے اشتہارات بند کرنے کی اطلاعات پر اظہار تشویش کیاہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز

حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو اپنے کچھ مشیروں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مشیر غلط بیانی سے حکومت اور میڈیا کے درمیان خلیج حائل کر رہے ہیں۔

وزیراعظم کے نام اپنے ایک پیغام میں پرویز الہیٰ نے چند اخبار اور میڈیا ہاوسز کے اشتہارات بند کرنے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے جموریت کا حسن ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین کو میڈیا میں جانے سے روکنے کی اطلاعات ہیں، اس اقدام سے پی ٹی آئی اپنا نقطہ نظر متوازن طریقے سے عوام کے سامنے نہیں رکھ پائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کی کوشش ناکام بنانے کیلئے وزیراعظم کی چوہدری برادران سے ملاقات

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے اپنے اراکین کو مخصوص چینلز میں نہ جانے کی ہدایت دیے جانے پر تشویش ہے، وزیر اعظم اور پارٹی قیادت سے فیصلے پر نظر ثانی کی دراخوست کرتے ہیں۔

پرویز الٰہی نے کہا کہ اشتہارات پر پاپندی بظاہر پیکا آرڈنیس کے تناظر میں لگائی گئی ہے، سرکاری اشتہارات عوامی ٹیکس سے ادا کیے جاتے ہیں جن کو مخصوص اخبارات اور چینل کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیننئر رہنما کا مزید کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے میڈیا ہاوسز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، وزیر اعظم نے مجھے میڈیا ہاؤسز اور حکومت کے درمیان پیکا آرڈنیس کے حوالے سے معاملات سلجھانے کا ٹاسک دیا ہے۔

انہوں نے اپنے پیغام میں وزیراعظم سے درخواست کی اپنے مشیران سے محتاط رہیں۔

مزید پڑھیں:یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

واضح رہے کہ متنازع پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کو ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں، صحافتی تنظیموں اور وکلا برادری کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔

چند روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آرڈیننس واپس لینے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو مکمل مینڈیٹ دیا ہے، جس طرح وہ کہیں گے اس طرح کر لیں گے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

نجی ٹی وی کے اینکر نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سے پیکا آرڈیننس پر صحافتی تنظیموں کے اعتراضات سے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا حکومت ایکٹ پر نظر ثانی کرسکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں:جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

جس کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی، پرویز الہٰی سے مذاکرت کر کے ایک ٹائم فریم کے اندر اپنی سفارشات کے ساتھ مسودہ تیار کرلے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

پیکا آرڈیننس

گزشتہ ماہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی

پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔

جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔

ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی،ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔

مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کابینہ نے سائبر کرائم قانون میں آرڈیننس کے تحت ترامیم کی منظوری دے دی، فواد چوہدری

یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔

قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں