عمران فاروق قتل کیس: عدالت کا مجرموں کی سزائیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ محمد امتیاز کا کہنا تھا کہ برطانوی حکام کو آئی ایچ سی کے فیصلے کے حوالے سے آگاہ کردیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ محمد امتیاز کا کہنا تھا کہ برطانوی حکام کو آئی ایچ سی کے فیصلے کے حوالے سے آگاہ کردیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم رہنما عمران فاروق کے قتل میں ملوث 3 مجرموں کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مجرموں کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے 18 جون 2020 کو سید محسن علی، معظم علی اور خالد شمیم کو عمر قید اور فی کس ایک کروڑ 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سزا برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ محمد امتیاز کا کہنا تھا کہ برطانوی حکام کو آئی ایچ سی کے فیصلے کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں سزا یافتہ مجرم نے فیصلہ چیلنج کردیا

انہوں نے کہا کہ پاکستان، برطانوی حکومت سے درخواست کرے گا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف کارروائی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم برطانوی حکومت سے درخواست کریں گے کہ اگر وہ الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے نہیں کر سکتے تو ان کے خلاف مقدمہ چلائیں‘۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ محمد امتیاز نے ہائی کورٹ کے سامنے دلیل دی کہ سید محسن علی کو مفرور ملزم کاشف خان کامران کے ہمراہ منصوبہ بندی کے تحت برطانیہ بھیجا گیا تھا تاکہ الطاف حسین کے خلاف ابھرتی ہوئی ڈاکٹر عمران فاروق کی آواز کو خاموش کروایا کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ لندن میں کیے جانے والے بہیمانہ قتل نے عوام اور خاص طور پر ایم کیو ایم کارکنان کے لیے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق کو الطاف حسین کے حکم پر قتل کیا گیا، عدالتی فیصلے کا متن

وکیلِ دفاع نے دلیل دی کہ عدالت میں پیش کردہ بینک ریکارڈ سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے شریک مجرموں محسن علی اور کاشف خان کامران کو براہ راست کوئی رقم منتقل کی گئی۔

وکیل نے مزید کہا کہ مجرموں کے خلاف سازش کے الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں کیونکہ اس حوالے سے استغاثہ نے کوئی تاریخ، مقام، وقت، اور طریقہ کار کا حوالہ نہیں دیا۔

اے ٹی سی نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ مجرموں کے اعترافی بیانات اور دیگر ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو اپنی سیکیورٹی کے حوالے سےتحفظات تھے اور انہوں نے ایم کیو ایم کے ان اعلیٰ رہنماؤں کی نشاندہی کی تھی جو ان کو قتل کر سکتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں