عمران فاروق کو الطاف حسین کے حکم پر قتل کیا گیا، عدالتی فیصلے کا متن

اپ ڈیٹ 18 جون 2020
عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ 10 سال بعد سنایا گیا—فائل فوٹوز: اے ایف پی
عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ 10 سال بعد سنایا گیا—فائل فوٹوز: اے ایف پی

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے سینئر رہنما کے قتل کا حکم دیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی اور فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21 مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنادیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل: الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

جج شاہ رخ ارجمند کے مطابق تین مشتبہ ملزمان کے مقدمے کے ٹرائل کے دوران یہ ثابت ہوا کہ الطاف حسین نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی مومنٹ کے بانی رکن کے قتل کے جرم میں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

عدالت نے تینوں ملزمان کو عمر قید کے ساتھ ساتھ تینوں پر مشترکہ طور پر 20 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا ہے جبکہ اس کے علاوہ تینوں ملزمان کو متاثرہ گھرانے کو 10، 10 لاکھ روپے فی کس ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے برطانوی اور پاکستانی حکومتوں کو مفرور ملزمان ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران کی گرفتاری کا بھی حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل : مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لندن میں مقیم پارٹی کے دو سینئر رہنماؤں نے الطاف حسین کا حکم پاکستان میں متعلقہ افراد تک پہنچایا، یہ پتا چلا ہے کہ ملزمان معظم علی، نائن زیرو پر کام کرنے والا ایک اور سینئر کارکن اور ملزم خالد شمیم نے عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے ملزم سید محسن علی اور کاشف خان کامران سے رابطہ کیا۔

عدالت نے مزید کہا کہ خصوصی طور پر قتل کی غرض سے لندن جانے والے دونوں قاتلوں کو مکمل سہولیات فراہم کی گئیں اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ایک معصوم شخص کا سفاکانہ قتل کردیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم اور قاتلوں کا پہلے سے ایک طے شدہ منصوبہ تھا جس کے تحت وہ عام افراد اور خصوصاً ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ڈرانا، دھمکانا اور خوف دلانا چاہتے تھے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی الطاف حسین کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ لہٰذا عمران فاروق کی پارٹی میں مضبوط پوزیشن اور خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے الطاف حسین اور دیگر سینئر قیادت کے حکم پر عمران فاروق کے قتل کا مقصد ثابت ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 18 جون کو سنایا جائے گا

عمران فاروق قتل کیس میں 3 ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی گرفتار ہیں جبکہ 4 ملزمان بانی ایم کیو ایم لندن الطاف حسین، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا، کاشف کامران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

مقدمے میں نامزد تمام ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش کرنے، معاونت اور سہولت کاری کے الزامات ہیں جس کا مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو درج کیا تھا۔

2 ملزمان نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا اور گرفتار ملزمان پر 2 مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور برطانیہ نے شواہد فراہم کیے جبکہ برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ٹرائل روکنے سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست مسترد

برطانیہ میں کیس کے چیف انویسٹی گیٹر نے بھی عدالت میں بیان دیا تھا جبکہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے وڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

پاکستان میں مقدمہ چلانے کی صورت میں برطانوی حکومت کو سزائے موت پر اعتراض تھا جس پر پاکستان نے برطانوی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔

چنانچہ حکومت برطانیہ نے پاکستانی حکومت کی اسی یقین دہانی پر شواہد فراہم کیے اور کیس میں تعاون کیا تھا۔

کیس میں ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ قتل کی واردات لندن میں ہوئی تھی لیکن چونکہ ملزمان کا تعلق پاکستان سے تھا اس لیے مقدمہ پاکستان کی عدالت میں چلایا گیا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: عمران فاروق قتل کیس میں نئی پیش رفت

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے یہ بھی کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: معظم علی رینجرز کے حوالے

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس نے تقریباً 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کی جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لیں۔

قبل ازیں لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کے علاوہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں