’بینچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، بلاوجہ اعتراض کیوں کیا جاتا ہے‘

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022
چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے ہیں — تصویر: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے ہیں — تصویر: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس

چیف جسٹس ‏عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ بینچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، 20 سال سے بینچز چیف جسٹس ہی تشکیل دیتے رہے ہیں، ‏بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں؟

خیال رہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے یہ ریمارکس ایسے وقت سامنے آئے کہ جب ایک روز قبل ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر اعتراض کیا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے تشکیل دیے گئے 5 رکنی بینچ میں ایسے ججز شامل ہیں جو عدالت کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے، آٹھویں اور تیرہویں نمبر پر ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو تسلیم کرتا ہے اور سنیارٹی کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، جس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے تشکیل دیے گئے بینچ پر اعتراض

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی امین کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ‏جس شخص کو مسئلہ ہو آکر بتائے، میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، ہمیں ادارے کی ‏باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہم تو ‏برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ججز پر الزمات لگانا اور انگلیاں اٹھانا بند کریں، وائس چیئرمین ‏پاکستان بار کونسل کا ججز کو تنخواہ دار ملازم کہنا اور الزام تراشی کرنا انتہائی نامناسب ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں، ‏ججز کی تعیناتی کے لیے طریقہ کار متفقہ طور پر وضع کیا جارہا ہے، ججز کے لیے قابلیت، ‏اچھا رویہ، بہترین ساکھ اور بغیر کسی خوف و لالچ کا معیار رکھا ہے۔‏

انہوں نے کہا کہ ججز عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے تک مقدمات سنتے ‏ہیں اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، ہم سب اللہ کو جواب دہ ہیں۔

مزید پڑھیں: صدارتی ریفرنس پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل

ان کا کہنا تھا کہ عوام میں ‏جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صرف میڈیا کے لیے ہے، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں ‏بنایا جاسکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، صدر سپریم ‏کورٹ بار کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟ 20 سال سے بینچز چیف جسٹس ہی تشکیل دیتے رہے ہیں ‏بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں؟ ‏

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی تعیناتی بہترین افسران میں ‏سے کرتے ہیں، رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور وہ انتظامی کام بھی کرنا جانتے ‏ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں انتظامی کام بھی میں کروں؟ کونسا مقدمہ مقرر ہونا ہے اور کس بینچ ‏میں مقرر کرنا ہے یہ فیصلہ میں کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز خود پر لگے الزامات ‏کا جواب نہیں دے سکتے، سنی سنائی باتوں پر سوشل میڈیا پر الزامات نہ لگائے جائیں، ‏فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں، مفید علم کی بات کریں۔

یہ بھی پڑھیں: رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ میں ‏یہ گفتگو کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن دل میں آئی بات کردی، ججز پر الزام تراشی کرنا غیر منصفانہ اور انتہائی نامناسب عمل ہے۔

جسٹس قاضی امین کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کے ذمہ داران نے شرکت کی۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ جسٹس قاضی امین فوجداری مقدمات کے ماہر مانے جاتے ہیں اور سول مقدمات پر بھی عبور رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور بنیادی حقوق کی محافظ ہے، پاکستان کے عوام کا اعتماد اور بھروسہ سپریم کورٹ پر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بطور ادارہ ایک فیملی کی طرح ہے جس کے اندرونی معاملات ادارے کے اندر طے ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سڑکوں، کیفیٹریا اور سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں آنا چاہئیں، عدالت کی پرانی روایات کو برقرار رکھا جائے۔

عدالتی تاریخ میں سیاہ صفحات کی تعداد روشن صفحات سے کم ہے، چوہدری حفیظ

قبل ازیں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین چوہدری حفیظ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں جسٹس قاضی امین کے فیصلے سے بار میں تشویش پائی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہلی نہیں، سپریم کورٹ بار

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی امین کے بعض فوجداری فیصلوں کو آئین و قانون سے متصادم سمجھا جاتا ہے, جسٹس منیر سے جسٹس گلزار تک ججز کو تاریخ کیسے یاد کرتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔

چوہدی حفیظ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں سیاہ صفحات کی تعداد روشن صفحات سے کم ہے، بعض ججز اہلِ منصب بننے کے بجائے سرکاری نوکر بن جاتے ہیں جو باعث تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں فریقین کو سنوائی کا خاطر خواہ موقع نہیں دیا جاتا ہے، کئی کئی سال سپریم کورٹ میں مقدمات مقرر نہیں ہوتے اور پڑے پڑے غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔

وائس چیئرمین بار کونسل نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں ججز کی تقسیم سے ادارے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، پوری قوم کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ پر ہیں، عدالت ایسے فیصلے کرے جس سے آئین کی بالادستی کا بول بالا ہو۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا کہ جسٹس قاضی امین ایڈہاک تعیناتیوں کے ہمیشہ خلاف رہے، اعلی عدلیہ میں بامعنی اور بامقصد تعیناتیوں کے اصول وضع کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی امین کی طرح اہل وکلا کو براہ راست سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔

احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدلیہ کا وقار بلند اور آئین کی بالادستی قائم ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی ایماندار حج، عدلیہ کے وقار کی علامت ہیں، ان کے خط سے عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ملتا ہے۔

صدر پاکستان بار کونسل نے امید ظاہر کی کہ چیف جسٹس اس معاملے پر محبت اور یگانگت کے ماحول کی آبیاری کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں