سینئر وکیل نے آرٹیکل 63-اے سے متعلق ریفرنس میں صدر کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھادیے

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022
سینئر وکیل نے کہا کہ صدر ریاست کا سربراہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں غیر جانبدار ہونا چاہیے— فائل فوٹو: عابد حسن منٹو فیس بک
سینئر وکیل نے کہا کہ صدر ریاست کا سربراہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں غیر جانبدار ہونا چاہیے— فائل فوٹو: عابد حسن منٹو فیس بک

سینئر وکیل عابد حسن منٹو نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے یہ بات اجاگر کی کہ بظاہر لگتا ہے کہ صدر مملکت نے مشورے پر اور سیاسی حکومت کی معاونت میں ریفرنس بھجوایا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ موجودہ ریفرنس میں صدر نے محض ہدایت نہیں مانگی بلکہ وہ اس معاملے پر عدالتی فیصلے یا رائے کے ذریعے منحرف اراکین کے لیے تاحیات نااہلی کی کوشش کر رہے ہیں۔

خط میں سینیئر وکیل نے یہ بھی کہا کہ صدر سپریم کورٹ کو ریفرنس وزیر اعظم یا کابینہ کی ایڈوائس پر نہیں بلکہ اپنی صوابدید پر بھجواتا ہے کیوں کہ صدر بحیثیت ریاست کے سربراہ کے ایک غیر جانبدار فرد سمجھا جاتا ہے۔

خط میں کہا گیا آرٹیکل 63 اے پر ایک تصور عام ہوگیا ہے کہ یہ شق کسی قسم کی ’اخلاقیات‘ کا احاطہ کرنے والی شق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اب اٹارنی جنرل پاکستان کی درخواست اور صدارتی ریفرنس کے لہجے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ رائے دینے کے لیے کہا جارہا ہے کہ ووٹنگ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر بعض صورتوں میں آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت تاحیات نااہل کیا جاسکتا ہے۔

خط میں چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی گئی کہ اسے اس بات پر غور کے لیے 5 رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا جائے کہ آرٹیکل 63-اے کے تحت پارٹی سربراہ کے لیے لازمی نہیں کہ منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں