جسٹس عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے تشکیل دیے گئے بینچ پر اعتراض

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2022
خط میں کہا گیا کہ سینئر ترین جج سپریم کورٹ کے ایک ادارے کے طور پر تسلسل کو یقینی بناتے ہیں —فائل/فوٹو: سپریم کورٹ
خط میں کہا گیا کہ سینئر ترین جج سپریم کورٹ کے ایک ادارے کے طور پر تسلسل کو یقینی بناتے ہیں —فائل/فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو 3 صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے تشکیل دیے گئے 5 رکنی بینچ میں ایسے جج شامل ہیں جو عدالت کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے، آٹھویں اور تیرہویں نمبر پر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خط میں کہا گیا کہ یہ عمل مقدمات میں اہم آئینی سوالات شامل ہونے کی صورت میں چیف جسٹس کی صوابدید سے پیشروؤں کی جانب سے سب سے سینئر ججوں پر مشتمل بینچوں کی تشکیل کے بہتر طریقہ کار کو ترک کر کے کیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی درخواست کو آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ساتھ ساتھ نہیں سنا جاسکتا، جس میں صدر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر رائے کی استدعا کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: صدارتی ریفرنس پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل

خط میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اصل دائرہ اختیار اور آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی دائرہ اختیار بالکل مختلف ہیں اس لیے اس کی ایک ساتھ سماعت نہیں ہو سکتی۔

خط میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ بینچ کا آئین میں کوئی قابل فہم معیار نہیں ہے، یہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے اور اس نے غیر ضروری اور قابل احتراز بدگمانیوں کو جنم دیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئین سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو تسلیم کرتا ہے اور سنیارٹی کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، جس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ نے لارجر بینچ تشکیل دے دیا

خط میں مزید کہا گیا کہ سینئر ترین جج سپریم کورٹ کے ایک ادارے کے طور پر تسلسل کو بھی یقینی بناتے ہیں لیکن اس طرز عمل کو ترک کر دیا گیا جس کے ادارے پر منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

سماعت (کل) جمعرات کو شروع ہوگی، لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

پیر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے اس معاملے کو ایک ساتھ سننے کے لیے ایک بڑا بینچ تشکیل دینے کا اشارہ دیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قانون سازوں کو ووٹ میں حصہ لینے سے روکنے کے حکومت کے ارادے کے خلاف حکم امتناع طلب کیا ہے۔

پیر کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ ایس سی بی اے کے وکیل منصور عثمان اعوان اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں کے وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اس معاملے کو سننے کے قائل نہیں ہے جس کے مطابق اسپیکر اسد قیصر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس 14 روز کی مقررہ مدت سے 3 روز بعد طلب کرکے آئین کی خلاف ورزی کی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں ہماری توجہ اسپیکر کے جاری کردہ حکم کی جانب مبذول کرائی گئی لیکن ہم اس معاملے کو اٹھانے کے قائل نہیں ہیں کیونکہ یہ عدالت کے سامنے نہ صرف ایس سی بی اے کی پٹیشن کے حوالے سے اٹھائے گئے آئینی تشریح کے سوالات کے ضمن میں تھا بلکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے بھی آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ایسی کسی بھی صورتحال میں آئین اس معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

جنید طاہر Mar 23, 2022 01:32pm
ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ بہت دیر کر دی مہربان آتے آتے