توہین عدالت کیس، فرد جرم عائد ہونے کے 2 ماہ بعد رانا شمیم نے بیانِ حلفی جمع کرادیا

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2022
عدالت نے سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد ہونے کے 2 ماہ سے زائد عرصے بعد بیانِ حلفی جمع کرادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بیانِ حلفی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے جمع کرایا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی جہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، رانا شمیم اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: بیان حلفی کیس: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد

عدالت کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروفیات کے باعث پیش نہیں ہوسکتے۔

اس موقع پر عدالت نے سابق جج رانا شمیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بیان حلفی جمع کروادیا ہے، جس پر رانا شمیم نے بتایا کہ آج بیان حلفی جمع کروا رہے ہیں۔

عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ آپ بیان حلفی کی کاپی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی فراہم کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کی عدم دستیابی پر سماعت 26 اپریل تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ دو ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد کردی جبکہ کیس میں نامزد جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن، سینیئر صحافی انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ اس عدالت کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے، کیا اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی مسئلہ ہے، اس عدالت کو ہی فوکس کر کے بیانیہ بنایا جا رہا ہے، عدالت کا احترام کرتے ہوئے کیس کی کارروائی آگے چلانے دیں۔

یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم نے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا دیا، وکیل

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ کس طرح کا بیانیہ ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آکر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، جس پر عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر تک اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم 7 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم کے وکیل نے کہا تھا کہ بیانِ حلفی کا متن درست ہے لیکن اسے شائع کرنے کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔

اس سماعت کے 10 دسمبر کو جاری ہونے والے حکم نامے میں ہائی کورٹ نے فریقین کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ نے رانا شمیم کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) مین شامل کردیا تھا جس کے تحت 30 روز کی سفری پابندی عائد ہوتی ہے۔

بعد ازاں 13 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے استدعا کی تھی کہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے۔

اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر اصل بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں 20 دسمبر کی سماعت میں رانا شمیم کی پیروی کرنے والے وکیل لطیف آفریدی نے بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت چاہتی ہے کہ اپنا بیانِ حلفی رانا شمیم خوف کھولیں۔

اس کیس کی 28 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم نے عدالت کے سامنے اپنا سر بمہر بیانِ حلفی کھول دیا تھا اور عدالت نے فریقین پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔

اس سماعت میں اٹارنی جنرل نے رانا شمیم اور دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ رانا شمیم بیان حلفی لکھنے والے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا تھا کہ حلف نامہ جن سے متعلق ہے ان کی جانب سے کوئی تردید نہیں کی گئی، رانا شمیم مان لیں وہ استعمال ہوئے اور معافی مانگیں اور اگر رانا شمیم ایسا کریں تو میں بھی کہوں گا کارروائی نہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں