سابق چیف جسٹس پر الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے جوابات ’غیر تسلی بخش‘ قرار

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2021
عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کو پانچ روز کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان کو پانچ روز کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے حلف نامے سے متعلق تحریری حکم نامے میں مبینہ مدعیان کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کو 'غیر تسلی بخش' قرار دیا اور ریمارکس دے کہ حلف نامے کی اصل کاپی جمع کرانے میں ناکام رہنے کی صورت میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق چیف جج نے اپنے بیان میں اس سے قبل یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کا حلف نامہ برطانیہ کی نوٹری پبلک سے 'لیک' ہو سکتا ہے اور میڈیا نے شائع کیا ہے۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم اصل حلف نامہ پاکستان ہائی کمیشن لندن کے حوالے کریں، اٹارنی جنرل کا خط

تاہم ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ مبینہ دعویداروں پر شائع شدہ حلف نامے کے مواد کی سچائی کے بارے میں عدالت کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

تحریری حکم نامے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے متنبہ کیا کہ حلف نامہ تیار کرنے والے سابق چیف جج رانا شمیم، پبلشر اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمٰن، سینئر صحافی انصار عباسی اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری پر فرد جرم عائد کی جائے گی اگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ حلف نامہ شائع کرنے کا مقصد حقیقی نہیں تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ حکم سابق چیف جج رانا شمیم کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کا جائزہ لینے کے بعد جاری کیا جس میں انہوں نے حلف نامے کی وجوہات بتائی تھیں کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) ثاقب نثار نے آئی ایچ سی کے جج کو فون کیا تھا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 2018 کے عام انتخابات سے پہلے رہا نہ کرنے کا کہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ابھی بیان حلفی نہیں دیکھا، اصل دستاویز جمع کرانے کیلئے وقت چاہیے، رانا شمیم

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ رانا محمد شمیم کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے حلف نامہ نہ تو پریس کو جاری کیا ہے اور نہ ہی اسے کسی کے ساتھ شیئر کیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ رانا شمیم نے مزید کہا ہے کہ انہوں نے لندن میں نوٹری پبلک کے سامنے بیان دیا اور اسے سیل بند لفافے میں رکھتے ہوئے اپنے پوتے کو واضح ہدایت کے ساتھ دیا کہ نہ تو وہ اسے کھولیں گے اور نہ ہی کسی کے ساتھ شیئر کریں گے، یہ کہا گیا ہے کہ بیان کی کاپی لندن میں نوٹری پبلک نے ریکارڈ کے لیے اپنے پاس رکھی ہے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ’یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رانا محمد شمیم نے تجویز کیا کہ حلف نامہ ان کی رضامندی کے بغیر نوٹری پبلک کے ذریعہ لیک کیا گیا، انہوں نے یہ بھی غیر واضح طور پر الزام لگایا کہ ان کے حلف نامے کو مبینہ طور پر انصار عباسی، عامر غوری اور میر شکیل الرحمٰن نے بغیر ان کی ظاہری یا خاموش رضامندی/منظوری کے شائع کرنے کے لیے استعمال کیا، اگر ایسا ہے تو اس کے لندن میں نوٹری پبلک سمیت دیگر کے لیے بھی سنگین نتائج ہو سکتے ہیں جنہوں نے حلف نامے کے مندرجات کو عوام میں پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کیا ہے‘۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مبینہ مدعیان کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور رانا محمد شمیم کو متنبہ کیا کہ وہ حلف نامے کی اصل کاپی جمع کرائیں ورنہ 13 دسمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں