پی ٹی آئی کا عمران خان کے فوکل پرسن کے گھر پر ’چھاپے‘ کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 10 اپريل 2022
اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی ٹوئٹر
اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی ٹوئٹر

پنجاب میں ڈیجیٹل میڈیا کے سابق فوکل پرسن اظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ سبکدوش وزیر اعظم عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر مبینہ طور پر 11 نامعلوم افراد کی جانب سے چھاپہ مارا گیا۔

اظہر مشوانی نے کہا کہ لاہور کے علاقے واپڈا ٹاؤن میں واقع ارسلان خالد کے گھر مبینہ چھاپہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد مارا گیا، جسے پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے رپورٹ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سحری کے اوقات میں 11 افراد نے ارسلان خالد کے گھر پر دھاوا بولا اور ملزمان تمام تر فونز اور لیپ ٹاپس اپنے ساتھ لے گئے، ملزمان نے ان کی 80 سالہ والدہ سمیت اہل خانہ کو دھمکیاں بھی دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں گزشتہ 4 ہفتوں سے ایسے افراد سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جو عوام کے آن لائن فیڈ بیک کو پسند نہیں کرتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: لیڈی کانسٹیبل کے بغیر پولیس کا گھر پر چھاپہ غیر قانونی قرار

پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے ٹوئٹ میں ایف آئی اے سے معاملے پر غور کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’انہوں نے سوشل میں پر کسی سے بدسلوکی کی نہ ہی کسی ادارے پر حملہ کیا ہے‘۔

دریں اثنا اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ نہیں کر پارہے ہیں۔

مزیدپڑھیں: پی ٹی آئی رہنما کی شادی میں قانون کی خلاف ورزی، چھاپے پر اسسٹنٹ کمشنر پر تشدد

وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی اور پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹ کیا کہ یہ متوقع چھاپہ تھا، تاہم ڈاکٹر ارسلان کو کہیں اور منتقل کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے آپ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ ارسلان خالد محب وطن ہیں اور انہیں اسی ملک میں رہنا ہے، ہمیں توقع تھی کہ آپ ایسا ہی کریں گے تو گزشتہ رات میں نے ان سے کہا اور انہیں ان کے گھر سے کہیں اور منتقل کردیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے جو موبائل اور لیپ ٹاپس لیے ہیں اس میں پیشہ ورانہ کام کے علاو کچھ نہیں ہے‘۔

واقعے کے مقدمے کے اندراج سے متعلق تاحال کوئی بات واضح نہیں ہوئی۔

مذکورہ چھاپے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر اسد عمر نے اسے ’قابل مذمت‘ اور ڈاکٹر ارسلان خالد کو ’قوم کا ایک اثاثہ‘ قرار دیا۔

سابق وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر ارسلان کے گھر میں چھاپے اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے کا سُن کر افسوس ہوا‘۔

سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یہ چھاپہ غیر متوقع نہیں تھا ’کیونکہ تنقید کے لیے گہری عدم برداشت غصے کی طرف لے جاتی ہے، تاہم سوشل میڈیا پر بے ساختہ تنقید بغاوت کے برعکس ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں