لیڈی کانسٹیبل کے بغیر پولیس کا گھر پر چھاپہ غیر قانونی قرار

21 فروری 2022
درخواست گزار شہزاد خان  کے وکیل علی زمان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو من گھڑت کیس میں پھنسایا گیا ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
درخواست گزار شہزاد خان کے وکیل علی زمان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو من گھڑت کیس میں پھنسایا گیا ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے پولیس کی جانب سے خاتون اہلکار کی موجودگی کے بغیر گھر کی تلاشی لینے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو قبائلی ضلع خیبر میں ایسے ایک چھاپے میں ملوث افسر کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس روح الامین خان پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے مجرم کی منشیات رکھنے کے مقدمے میں اپیل منظور کرتے ہوئے اس کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ حکم جاری کیا۔

درخواست گزار ضلع خیبر کے رہائشی شہزادہ خان نے بتایا کہ یکم ستمبر 2020 کو سب انسپکٹر عدنان خان کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا جس میں جمرود تھانے کے ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکار شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حبس بے جا کیس: پولیس نے عارف گل کو عدالت میں پیش کردیا

شکایت گزار پولیس افسر عدنان خان نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار اپنے گھر کے صحن میں کھڑا تھا اور اس کے پاس پلاسٹک کا ایک شاپر تھا جس میں تین کلو گرام ہیروئن تھی، پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ شہزاد خان کے قبضے سے ایک کلاشنکوف بھی برآمد ہوئی ہے۔

درخواست گزار کو خصوصی عدالت (انسداد منشیات) کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے 15 جولائی 2021 کو مجرم قرار دیا تھا اور اسے 5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ 5 سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

درخواست گزار شہزاد خان کے وکیل علی زمان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو من گھڑت کیس میں پھنسایا گیا ہے، دوران سماعت بینچ نے مشاہدہ کیا کہ شکایت گزار پولیس افسر نے اعتراف کیا ہے کہ چھاپہ مار ٹیم کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: زیر حراست شخص کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر سپریم کورٹ حکومت پر برہم

عدالت نے ریمارکس دیے کہ چھاپے اور بازیابی کی کارروائی کے دوران لیڈی اہلکار کا نہ ہونا خیبر پختونخوا کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ، 2019 کے سیکشن 27، 28 اور 31 کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے سیکشن 27 کے تحت کسی رہائشی مکان کی تلاشی لینے کی صورت میں تلاشی لینے والے افسر کو خاتون اہلکار کے ہمراہ جانا چاہیے اور خواتین اور گھر کے وقار اور شائستگی کو برقرار رکھنے کے لیے گھر کی خواتین کو پردے کا موقع دینا چاہیے۔

بینچ کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے سیکشن 31 کے تحت کسی بھی رہائشی مکان کی تلاشی کی صورت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 103 کی شق کے مطابق تلاشی کے دوران علاقے کے قابل ذکر افراد کو جوڑنے کے معاملے پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے پولیس کو کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی شکایت پر کارروائی سے روک دیا

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکشن 27 کی دفعات کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں ایکٹ کے سیکشن 32 کے تحت تعزیری نتائج نکلتے ہیں، جس کے مطابق سیکشن 27 کے تحت اختیار یافتہ کوئی افسر، اگر سی آر پی سی کی دفعہ 103 کی تعمیل کے بغیر کسی رہائشی مکان میں داخل ہوتا ہے یا ایسے گھر کی خواتین کو پردہ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتا تو اسے تین سال تک قید اور 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہونا چاہیے۔

بینچ نے فیصلہ دیا کہ ایکٹ کی مذکورہ لازمی دفعات کی موجودہ کیس میں پولیس افسر کی جانب سے کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی، اس لیے وہ قانون کے تحت قانونی نتائج کا سامنا کرنے کا حق دار ہے۔

جج کا فیصلے میں کہنا تھا کہ شکایت گزار افسر کوئی معقول وضاحت نہیں دے سکا کہ ایس ایچ او، جو تھانے کا سربراہ تھا، چھاپہ مار ٹیم میں موجودگی کے باوجود مقدمے میں شکایت کنندہ اور منشیات ضبط کرنے والا افسر کیوں نہیں بنا۔

تبصرے (0) بند ہیں