عمران خان وزیرِاعظم نہیں رہے۔ 9 اپریل کی رات یہ ایک بین الاقوامی خبر تھی۔ کئی دنوں کی اعصاب شکن جنگ کے بعد بلآخر وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی۔ ایک طرف جہاں متحدہ اپوزیشن اس کامیابی پر جشن منا رہی تھی تو وہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صفوں میں ماتم بچھا تھا اور شدید غم و غصہ بھی تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہ امریکا کے مبیّنہ دھمکی آمیز خط میں کتنی سچائی ہے اور پاکستان جیسے قرضوں میں دھنسے غریب ملک کی خارجہ یا کوئی بھی پالیسی کس حد تک آزاد ہوسکتی ہے، لیکن پارلیمنٹ کے باہر جمع ہونے والے پی ٹی آئی کے چند کارکنوں کا غم و غصہ اور سوشل میڈیا پوسٹ دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عمران خان کے بیانیے نے ایک واضح سیاسی برتری حاصل کرلی ہے۔

رات گئے پارلیمنٹ سے نکل کر اپنے گھر بنی گالہ روانہ ہوا تو ہر طرف پولیس تھی یا خاموشی۔ آب پارہ رکا تو چوک پر کچھ لوگ مٹھائیاں بانٹتے نظر آئے۔ مجھے 12 اکتوبر 1999ء کی رات یاد آگئی اس دن بھی پی ٹی وی کے باہر کچھ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں تھیں۔ اس دن بھی شہر اداس تھا، مجھے شہر آج بھی اداس ہی لگا۔

بنی گالہ پہنچا تو بے اختیار عمران خان کے گھر کی جانب مڑ گیا۔ وہاں غیر معمولی سناٹا تھا۔ عمران خان رات قریباً 10 بجے وزیرِاعظم ہاؤس سے بذریعہ ہیلی کاپٹر اپنے گھر پہنچے تھے۔ اسی وقت ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے تبادلے کی خبر آئی۔ اسلام آباد پولیس اور اسپتالوں میں ایمرجنسی کی بھی اطلاع تھی۔ عدالتیں بھی کھل گئیں تھیں۔ عمران خان ابھی وزیرِاعظم تھے تو وزیرِاعظم کے سیکریٹری کا کس نے تبادلہ کیا یہی سوچتے انصاف ایونیو پہنچ گیا۔

مزید پڑھیے: اعصاب کی جنگ اور دورِ عمران کا اختتام

ایکڑوں پر پھیلے ان کے محل نما گھر کو جانے والی سڑک سنسان تھی۔ سڑک کے کنارے چیک پوسٹ پر کچھ پولیس والے جمائیاں لے رہے تھے۔ 5 سال پہلے جب اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کو برطرف کیا گیا تھا تو اسی جگہ پی ٹی آئی کے حامی لڈیاں ڈال رہے تھے اور مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ پولیس والے مجھ سے سوال و جواب کرتے میں اپنے گھر آگیا لیکن ذہن میں فلم چلتی رہی۔

بطور صحافی عمران خان سے میرا واسطہ 2006ء میں پڑا تھا جب وہ ایف 7 دفتر میں ہفتہ وار پریس کانفرنس کرتے تھے۔ اس وقت ان کے ساتھ گنتی کے ہی لوگ ہوتے تھے۔ کوریج کے لیے صحافی بھی چند ہی آتے تھے۔ عمران خان کو میں نے کبھی صحافیوں سے بے تکلف ہوتے نہیں دیکھا۔ ہاں اینکرز یا مالکان کی بات اور ہے جنہیں وہ اپنی ذاتی محفلوں میں بھی گاہے بگاہے مدعو کرتے رہتے تھے۔

اس وقت بطور کرکٹر لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ صرف خواتین ہی نہیں اچھے بھلے آدمی بھی ان سے بات کرنا یا ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے جلسوں میں گنتی کے ہی لوگ آتے تھے۔ لیکن کسی کے آنے یا نہ آنے سے عمران خان کو کبھی فرق نہیں پڑا۔ وہ تو جیسے فولاد کے بنے تھے۔ میں نے انہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا۔ انہوں نے سالوں گنتی کے چند لوگوں کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

پھر 2011ء کے جلسے نے تو جیسے قسمت ہی پلٹ دی۔ ہر طرف سے لوگوں کا جم غفیر پارٹی میں شامل ہوتا گیا۔ پریس کانفرنس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ پی ٹی آئی دفتر میں ہمہ وقت نئے چہروں کی بھرمار نظر آنے لگی۔ بعد میں ان میں سے کئی چہرے مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں پہنچ گئے۔ عددی برتری کے چکر میں عمران خان نے ان لوگوں کو بھی اپنی جماعت میں لے لیا جن پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے لیکن ان کے چاہنے والے بڑھتے گئے۔

2011ء کے جلسے  نے تو جیسے عمران خان کی قسمت ہی پلٹ دی
2011ء کے جلسے نے تو جیسے عمران خان کی قسمت ہی پلٹ دی

مقبول ہونے کی گہما گہمی میں عمران خان چوک گئے کہ انہیں قابل لوگوں پر مشتمل اپنی ٹیم تیار کرنی ہے جو کام کرسکے۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے ٹیم نہیں بنائی لیکن وہ سارے نا تجربہ کار لوگ ثابت ہوئے جن سے خان بڑی امیدیں وابستہ کرکے بیٹھ گئے تھے۔ خزانہ جیسی اہم اور کسی بھی حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی وزارت کے لیے خان صاحب کا انتخاب اسد عمر تھے۔

مجھے یاد ہے اپریل 2012ء کی وہ شام جب میڈیا کو سیکٹر جی 5 میں واقع پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں بڑی تاکید سے بلایا گیا تھا۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس عمران خان کے بائیں طرف شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور مرحوم نعیم الحق براجمان تھے جبکہ ان کے دائیں جانب پتلون قمیض میں ملبوس ایک نامانوس چہرہ تھا۔ یہ جاذب نین نقش والے دراز قد اسد عمر تھے جن کی پارٹی میں شمولیت کے اعلان کے لیے یہ محفل بڑے تپاک سے سجائی گئی تھی۔

عمران خان نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سالوں کی تپسیا رنگ لائی ہے اور ایک بہت بڑی کمپنی کا سربراہ نوکری کو لات مار کر ان کی جماعت میں شامل ہورہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نئے پاکستان کی معاشی پالیسی اسد عمر وضع کریں گے۔

اس دن سے جماعت ہی نہیں بلکہ سارے ملک کی نظریں اسد عمر پر جم گئیں کہ یہ معاشی انقلاب لائیں گے۔ اسد عمر، جنرل عمر مرحوم کے بیٹے ہیں۔ جنرل عمر کا نام حمود الرحمن کمیشن میں بطور ملزم درج ہے۔ اسد عمر سابقہ گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر عمر کے چھوٹے بھائی ہیں۔

مزید پڑھیے: ’آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا‘

اسد عمر نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز 1985ء میں ایکسون کمپنی سے کیا جہاں ان کی تنخواہ 8 ہزار 170 روپے تھی۔ کچھ عرصہ انہوں نے کینیڈا میں بطور تجزیہ کار کام کیا۔ ایکسون کے اینگرو بننے کے بعد انہیں پاکستان بلوا کر کمپنی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ان کی سربراہی میں کمپنی نے دن دُگنی رات چوگنی ترقی کی اور آج بھی کر رہی ہے۔

عمران خان پریس میں اسد عمر کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کررہے ہیں—تصویر: ٹوئٹر
عمران خان پریس میں اسد عمر کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کررہے ہیں—تصویر: ٹوئٹر

اسد عمر نے 27 سال بعد جب کمپنی چھوڑی تو ان کی تنخواہ 57 لاکھ روپے ماہانہ تھی۔ ان کے پاس اینگرو کمپنی کے 20 لاکھ شیئرز تھے جبکہ وہ 10 لاکھ مزید خریدنے کا استحقاق رکھتے تھے۔ اس وقت کمپنی کا 100 روپے سے کچھ زائد کا تھا۔ استعفٰی دینے کے چند روز بعد ہی وہ پاکستان تحریک انصاف سے منسلک ہوگئے۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ یہ محض اتفاق ہوسکتا ہے کہ جب اسد عمر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ اور پاکستان تحریک انصاف کے نائب صدر کے طور پر ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے اس دوران اینگرو بھی ترقی کے سفر پر گامزن رہی۔ اینگرو کا ایک شیئر 300 روپے سے زائد کا ہوگیا۔ ملک میں جاری معاشی زبوں حالی سے اسے کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ اس وقت بھی اینگرو کا ایک شیئر 250 روپے سے زائد کا ہے۔

لیکن دوسری طرف اسد عمر 2013ء سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت کی سربراہی کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، اسٹیل ملز اور دوسرے قومی اداروں میں ان کی تمام تر انتھک محنت کے باوجود بہتری نہ آسکی۔ یہی نہیں بلکہ نہ مقامی صنعت فعال ہوسکی، نہ آٹو سیکٹر سے لے کر جدید انڈسٹری تک ملکی منڈی پر غیر ملکی کمپنیوں کا تسلط ختم ہوسکا اور نہ ہی مسابقت کی فضا پیدا ہوسکی۔ آج بھی آٹو کمپنیاں قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتی ہیں۔ اسد عمر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس ریونیو اینڈ اکنامک افیئرز میں بھی رہے۔

2004ء سے 2011ء کے درمیان اینگرو کا منافع 13 ارب سے 114 ارب روپے تک پہنچا دینے والا ماہر ملکی ترقی میں کوئی زیادہ اہم کردار نہ ادا کرسکا۔ اس کے باوجود حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے اسد عمر کو وزیرِ خزانہ لگا دیا کہ عمران خان کے نزدیک قابلیت شاید کارکردگی نہیں بلکہ وفاداری ہے۔

گوکہ اسد عمر وزیرِ خزانہ کے عہدے پر محض 8 ماہ ہی رہے لیکن اس قلیل مدت میں ان کے فیصلے پی ٹی آئی حکومت کی خفت کا باعث بنے۔ ان کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے چینی برآمد کرنے کے فیصلے (چینی سکینڈل) پر پاکستان تحریک انصاف کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ، گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے حوالے سے ان کے فیصلوں سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یوں لگتا تھا اسد عمر معیشت کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور نہ ہی انہوں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی۔

معیشت گرتی رہی اور بالآخر انہیں عہدے سے برخاست کردیا گیا لیکن معیشت نہیں سنبھلی۔ کورونا وبا کے دوران وقتی سہارا تو ملا لیکن بگاڑ اتنا ہوچکا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت تیل کی منفی قیمتوں اور بین الاقوامی امداد کا فائدہ بھی نہیں اٹھا سکی۔

اس کا کسی طور یہ مطلب یہ نہیں کہ اسد عمر یا عمران خان ملک سے مخلص نہیں۔ 20 سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آنے والا شخص ملک یا عوام سے مخلص نہیں یہ سوچنا ہی غلط ہوگا۔ یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسے اقدامات کرے کہ اس کا اقتدار ہی چلا جائے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے ملک کی تقدیر سنوارنے والے اقدامات کرنے میں چوک ہوئی۔

اسد عمر کا بطور وزیرِ خزانہ ناکام ہونا نہ ان کا جرم ہے اور نہ عمران خان کا۔ ہاں عمران خان کی بدقسمتی تھی کہ انہیں قابل وزیرِ خزانہ نہیں مل سکا۔ شاید ان کی توجہ بھی نہیں تھی کہ وہ تو 11 بجے دفتر جاتے اور شام 5 بجے تک گھر لوٹ آتے۔ یہ قلیل وقت بھی وہ مخالفین پر تنقید میں گزار دیتے یا اپنی میڈیا تشہیر پر جس کا ملکی معیشت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسوں یا گاڑیوں کی نیلامی ہو یا دوسرے اقدامات، سب میڈیا مہم ثابت ہوئے۔ یہ عمران خان کی خام خیالی تھی کہ وہ اپوزیشن پر حملے کرکے 5 سال نکال لیں گے۔

مان لیتے ہیں کہ حکومت بنانے کے لیے انہیں ایسے بھی گھوڑوں کو شامل کرنا پڑا جن پر کرپشن کے الزامات تھے، تو پھر وہ دعویٰ کیا ہوا کہ ملک کا سربراہ کرپشن سے پاک ہو تو ملک سیدھا ہوجاتا ہے۔ وہ ٹرکل ڈاؤن افیکٹ کہاں گیا؟ ریاستِ مدینہ تو چھوڑیں کیا قدم قدم پر جھوٹ بولنے والا شخص، یا مہذب الفاظ میں یوٹرن لینے والا مسلمان بھی رہتا ہے؟

عمران خان نے ہمیشہ نہایت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے ان کی ذاتی زندگی پر جتنے حملے کیے، کردار کشی کی، خلوت کی باتیں منظرِ عام پر لائیں لیکن شاباش ہے کہ عمران خان ایک لفظ نہ بولے۔ یہ بہت بڑے کردار کی بات ہے۔ اب جبکہ ریحام خان علی الاعلان ان کے بدترین مخالفین سے جا ملی ہیں وہ پھر بھی خاموش ہیں۔

پی ٹی آئی میڈیا سیل گاہے بگاہے اپنی حکومت کی کامیابیاں گنواتا رہتا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کی جماعت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کیے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہوتی اگر حکومت نے مزید قرضے نہ لیے ہوتے۔

مزید پڑھیے: ’وہ اہم معاملات جن پر نئی حکومت کو فوری طور پر توجہ دینا ہوگی‘

بطور حکمران جماعت اگر ساڑھے 3 سالوں میں پی ٹی آئی کی کوئی کامیابی نظر آتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر ہے۔ انہوں نے ایک ایسی قابل ٹیم بنائی تھی جو انہیں روزانہ سوشل میڈیا پر ہیرو اور ملک کے مسیحا کے طور پر پیش کرتی تھی۔ شروع میں تو عمران خان نے دوسری حکومتوں کے جاری کردہ انکم سپورٹ پروگراموں پر اپنی مہر لگا کر خوب داد سمیٹی لیکن مہنگائی کے مقابلے میں جب عوام کو امدادی رقوم کے نام پر مونگ پھلیاں ملیں اور کسی کو وہ بھی نہیں، پھر مفت لنگر اور ادویات کے دعوے بھی پورے نہ ہوئے تو وہ بدگمان ہوئے۔ رہی سہی کسر روز بڑھتی مہنگائی نے پوری کردی۔ 2019ء میں 170 روپے لیٹر بکنے والا پکوان تیل 2022ء میں جب 450 کا لینا پڑا تو عوام کی چیخیں نکل گئیں۔

اسی طرح کھانے پینے کی اشیا، گوشت، دودھ، چاول، دالوں اور پیٹرول کی قیمتیں بھی دُگنی سے زائد ہوگئیں۔ شہری انتظامیہ تاجروں کی سہولت کار بن گئی اور ہر دکاندار نے من چاہی قیمت لگا لی۔ اس کے برعکس عام آدمی کی آمدنی کم ہوتی چلی گئی۔ معاشی ماہرین چیختے رہے کہ عمران خان نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا۔

اگر ساڑھے 3 سالوں میں پی ٹی آئی کی کوئی کامیابی نظر آتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر ہے
اگر ساڑھے 3 سالوں میں پی ٹی آئی کی کوئی کامیابی نظر آتی ہے تو وہ سوشل میڈیا پر ہے

ایسے حالات میں اگر خان صاحب اپنی حکومت کے گرنے کا الزام امریکا یا اپوزیشن پر دھریں تو شاید یہ درست نہیں۔ کیا انہیں امریکا نے کہا تھا کہ ہر حکومتی محاذ پر نااہلی دکھائیں؟

پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ مہنگائی پر انہیں نااہل نہ کہا جائے بلکہ ان کی حکومتی کارکردگی کو اس بات پر پرکھا جائے کہ امریکا بھی ان کی حکومت گرانے کے درپے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے ایسا کیا کیا ہے کہ امریکا کو تشویش لاحق ہو۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ روس کا دورہ کرنے کی وجہ سے ایسا کچھ ہورہا ہے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ روسی افغان جنگ کو کبھی نہیں بھولتے۔ ویسے آپ روس سے لے کر کیا آئے ہیں۔ کوئی قرضہ یا امداد؟ نئے نہ سہی کسی پرانے منصوبے پر ہی عمل درآمد کروا لیا ہوتا تو سب آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ہوسکتا ہے آئندہ دنوں میں عمران خان کے حامی ان کی مسلسل اپیلوں پر لبیک کہتے ہوئے سڑک پر نکل آئیں، لیکن اس سے ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہوں گے۔ اگر فرض کریں کہ عمران خان کی پکار پر انقلاب آ بھی جائے تو کیا وہ اسی مانگے تانگے کی ٹیم کے ساتھ دوبارہ حکومت بنائیں گے۔ سوچیں عام آدمی کا کیا بنے گا؟

عمران خان نے 20 سال جدوجہد کی ہے۔ اگر وہ انتشار پھیلانے کے بجائے چند سال اور لگا کر معیشت سمجھنے والوں کی ایک ٹیم بنالیں تو چاہے اپوزیشن میں بیٹھیں یا حکومت میں ملک کا بھی فائدہ ہوگا، عوام کا بھی اور ان کا بھی۔

تبصرے (6) بند ہیں

chma pershant Apr 13, 2022 12:27am
excellent to the point. Hope PTI will not disappear you any more
Sam Apr 13, 2022 07:44am
What struggle IK did. I don't get when people bring it up. He is not Gandhi.
tahir khan Apr 13, 2022 09:00am
Ap ye kiu bhool jaty hain k corona ny jahan dunya ki economy tabah krdi wahin pakistan ki bhi. jo menhgai aj hy kia os main corona ke effect nhi? poori dunya abhi tak pareshan hy.
Talha Apr 13, 2022 03:10pm
Aik bahot hiee achiee tehreer...... aik taza hawaa ka jhonka.......
Tariq umer Apr 15, 2022 02:17am
Really like your selection of words.... appreciate it
Ismail Apr 17, 2022 05:48pm
I don’t think so it is fair to compare a person time spent in his past employment with his any ministerial portfolio as they are not only different placement but in any ministerial job you need a time to get things right and overall Imran had so many things on his plate that to expect everything to be corrected in no matter of time then it is a beggar’s belief.