9 اپریل کا دن ان تمام لوگوں کے لیے بہت زیادہ کٹھن تھا جو یا تو ملکی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں یا پھر ان تمام جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں جو تحریک عدم اعتماد کے اس کھیل کے آخری مرحلے میں شامل تھیں۔

ایک جانب ملک کے 342 منتخب نمائندگان کے ایوان میں موجود نمائندے پریشان تھے تو دوسری جانب قومی اسمبلی کی مہمانوں اور پریس گیلری کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ بظاہر تو اس شاندار عمارت کے اندر ٹھنڈک بہت تھی لیکن حکومتی نشستوں پر غصے کی گرمی جبکہ اپوزیشن رہنماؤں کے چہروں پر امید کے آثار نظر آتے تھے۔

یہ اجلاس سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہورہا تھا جس میں بحیثیت وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی جانی تھی۔ ایک دن پہلے ہی حکومتی ذمہ داروں نے یہ تاثر دینا شروع کردیا تھا کہ 9 اپریل کو ووٹنگ نہیں ہوگی۔ بظاہر اس دھمکی کے پیچھے یہ حکمتِ عملی تھی کہ ووٹنگ میں جتنا ممکن ہوسکے تاخیر کی جائے تاکہ کہیں نہ کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر آجائے اور شاید حکومت بچ جائے۔

لیکن جب 9 اپریل کی تاریخ کو ختم ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا تھا تو کھیل اچانک تبدیل ہوگیا۔ آخری گھنٹے نے ہی عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کا وہ پہلا وزیرِاعظم بنادیا جسے جمہوری طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا۔

9 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت صبح ساڑھے 10 بجے کا تھا اور اجلاس کا آغاز بھی اسی وقت کردیا گیا۔ مہمانوں کی تمام گیلریاں مکمل طور پر بھری ہوئی تھیں جن میں اکثریت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی تھی۔ ان میں سینیٹرز کے علاوہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان، پیپلزپارٹی سندھ کی قیادت، آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بہت سارے رہنما موجود تھے۔ ایوان کے اندر اپوزیشن کی تمام نشستیں بھری ہوئی تھیں جبکہ حکومتی نشستوں پر محض 50 کے قریب ہی ارکان تھے جن کے چہروں پر مایوسی کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔

شہباز شریف نے اپنی بات کا آغاز کیا اور کہا کہ ہم ایک سلیکٹڈ وزیرِاعظم کو شکست دینے جارہے ہیں اور انہوں نے اسپیکر سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ صحیح معنوں میں اپنے منصب کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ جس پر اسپیکر نے انہیں یقین دلایا کہ ملک کے خلاف جو سازش ہورہی ہے اس پر بھی بات ہوگی لیکن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق اس پر عمل کرواؤں گا۔ اس کے بعد مائیک وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو دے دیا گیا اور پھر آدھے گھنٹے بعد اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اگر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرلیا جاتا تو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا تمام عمل ایک سے 2 گھنٹے کا تھا۔ لیکن اپوزیشن کو اندازہ تھا کہ اسپیکر آج ووٹنگ نہیں کروائیں گے اور اسی خدشے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپوزیشن کے رہنماؤں نے اسپیکر اسد قیصر سے ملاقات کی اور انہیں یاددہانی کروائی کہ اگر آج ووٹنگ نہ کروائی تو آپ توہینِ عدالت کے مرتکب ہوں گے۔

رات 12 بجنے سے پہلے تک اسپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے تھے۔ اپوزیشن ایک مطالبہ کرتی تو تھوڑی دیر بعد وفاقی وزرا آکر اسد قیصر کو عمران خان کا پیغام دیتے کہ ووٹنگ نہیں کروانی۔ صبح ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اسپیکر قربانی کا بکرا بنیں گے۔

پریس گیلری میں حکومت کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والے صحافی اس کی توجیہہ یہ پیش کررہے تھے کہ ایک بار پھر رولنگ آئے گی اور اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یعنی وہ عدالتی حکم پر عمل نہ کرکے نااہلی کے لیے تیار تھے، لیکن کم از کم عمران خان کے اقتدار کو کچھ دن مل جاتے۔

وقفے پر وقفے کی پریکٹس دیکھ کر اپوزیشن کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ اسپیکر نے 3 بار جبکہ پینل آف چیئر کے امجد نیازی نے 2 بار اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہوگا لیکن ساتھ ساتھ وہ اپوزیشن کو پارلیمان کی بالادستی اور سپریم کورٹ کی ایوان کی کارروائی میں مداخلت کے بارے میں بھی آگاہ کرتے رہے۔

اجلاس میں 4 بار وقفہ کیا گیا۔ پہلے وقفے میں خواجہ سعد رفیق کے ساتھ فواد چوہدری کی سرگوشی والی تصویر اور ویڈیو وائرل ہوئی تو ساتھ ’آخری گیند‘ بھی گیلری میں گھومتی رہی جس کی تصاویر مریم اورنگزیب اور آصفہ بھٹو کی طرف سے جاری کی گئیں۔

اس دوران نوٹ کرنے والی اہم بات یہ تھی کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے شاہین 3 میزائل کے تجربے کی ویڈیو جاری کی گئی تو اس پر بڑی تعداد میں منفی کمنٹس آئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ صورتحال کس طرف جارہی ہے۔ ایوان کے اندر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کچھ خواتین ارکان پلے کارڈ لکھتی رہیں۔ ان میں سے ایک خاتون رکن عاصمہ حدید کو پتا چلا کہ میڈیا پر یہ خبر چل رہی ہے کہ امریکا مخالف پلے کارڈ لکھے جارہے ہیں تو وہ سیدھا پریس لاؤنج پہنچیں اور وضاحت کی کہ وہ امریکا مخالف نہیں ہیں۔

دوسرے وقفے کے دوران ارکان کی بڑی تعداد ایوان میں سوتی رہی جبکہ آخری وقفے میں ارکان ایوان کے اندر نمازِ عشاء ادا کررہے تھے۔ جب نماز عشاء کے لیے ساڑھے 9 بجے تک وقفہ کیا گیا تو اس وقت یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اسپیکر ووٹنگ نہیں کروائیں گے۔ انہیں اسمبلی حکام نے بتادیا تھا کہ اگر آپ ووٹنگ نہیں کروائیں گے تو اس کی زد میں آپ کے ساتھ ساتھ ہم بھی آجائیں گے۔ یہ اعصاب کا کھیل تھا، اسپیکر کرتے تو کیا کرتے؟

اس دوران وزیرِاعظم کی طرف سے 9 بجے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے چہروں پر موجود پریشانی کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ اسی دوران اسپیکر کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے خط بھی بھیجا گیا، لیکن پریس گیلری اور لاؤنج میں موجود صحافیوں کی بڑی تعداد کو یقین نہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر آج ووٹنگ ہوگی۔ پریس گیلری اور لاؤنج میں 175 کے قریب صحافی موجود تھے جن میں اینکرز کی بھی بڑی تعداد تھی اور سب کا ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟

جب 10 بجنے لگے تو پھر سب نے الٹی گنتی شروع کردی اور یہی وہ وقت تھا جب اسپیکر قومی اسمبلی کبھی اسمبلی حکام کو اپنے دفتر بلاتے رہے اور کبھی وزیرِاعظم ہاؤس آتے جاتے رہے۔ جب آخری بار وہ وزیرِاعظم ہاؤس سے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو مستعفی ہونے سے 20 منٹ پہلے لفٹ میں سوار ہوتے وقت صحافیوں کے ساتھ ان کی تلخ کلامی بھی ہوگئی۔ اب کہانی اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی۔

جس وقت اسپیکر لفٹ میں سوار ہورہے تھے تو اسی وقت پارلیمنٹ ہاؤس کے ساتھ سپریم کورٹ کے دروازے بھی کھل چکے تھے۔ شاہراہِ دستور پر غیر معمولی نقل و حرکت شروع ہوچکی تھی اور اعصاب کی جنگ آخری مراحل میں داخل ہوچکی تھی۔

اسپیکر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرکے آئے تھے کیونکہ اس آخری گھنٹے کے دوران وزیراعظم ہاؤس میں بہت کچھ ہوچکا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اگر 12 بجے تک اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائیں گے تو اپوزیشن کی جانب سے ایک درخواست تیار کی جائیگی اور سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے کیونکہ سپریم کورٹ کھل چکی تھی اور عملہ بھی پہنچ چکا تھا۔ یہی صورتحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی تھی۔

اسی آخری گھنٹے میں عمران خان سے وہ آخری بال بھی لے لی گئی تھی جسے انہوں نے کھیلنا تھا۔ اسپیکر نے جیسے ہی ایوان کے اندر اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر متحدہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے کارکنان جمع تھے، اور وہاں شدید نعرے بازی شروع ہوگئی جبکہ کچھ خواتین کی گرفتاری کی خبریں بھی آئیں۔

ایوان کے اندر ایاز صادق اسپیکر کی کرسی سنبھال چکے تھے، 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد ایاز صادق نے ہی علامتی اجلاس کی صدارت کرکے وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی چلائی تھی، مگر اس بار وہ حقیقی کارروائی چلارہے تھے۔

3 اپریل کی علامتی کارروائی میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں 196 ووٹ پڑے تھے جبکہ اس حقیقی کارروائی میں تحریک کے حق میں 174 ووٹ پڑے، دونوں ہی دن ایاز صادق کو ووٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بلآخر اسپیکر ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کیا۔

تحریک انصاف کے ایک رکن کے علاوہ ایوان میں موجود تمام سیاسی قیادت پرانے پاکستان کا استقبال کر رہی تھی۔ گیلری میں ہونے والی نعرے بازی کے باعث ایوان کی کارروائی میں خلل پڑتا رہا۔

3 اپریل کو جب ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا تھا تو پی ٹی آئی کے ارکان اور گیلریوں میں موجود مہمان پی ٹی آئی کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔ لیکن اب منظرنامہ تبدیل ہوچکا تھا، کیونکہ اب شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری کے سب پر بھاری ہونے کے نعرے لگ رہے تھے۔ یوں ایک اعصابی جنگ اور اقتدار کا ایک دور ختم ہوچکا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Apr 11, 2022 04:47pm
Apni aaj tak kiee zindagiee mein. Junejo sey leh kar IK tak…. meri khwahish hai keh …. IK ka khofnaak dour-e-hakumat meriee yaaddasht sey hamesha keh liyey saaf ho jayey….