حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف درخواستیں دوسرے جج کو منتقل

اپ ڈیٹ 07 جون 2022
حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف زیر التوا درخواستوں پر سماعت 20 جون کو شروع ہوگی— فوٹو: حنا پرویز بٹ / ٹوئٹر
حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف زیر التوا درخواستوں پر سماعت 20 جون کو شروع ہوگی— فوٹو: حنا پرویز بٹ / ٹوئٹر

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب کے خلاف زیر التوا درخواستیں اپنی عدالت سے دوسرے جج کو منتقل کر دیں جو 20 جون کو ان درخواستوں پر سماعت شروع کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کیے جانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پارٹی سے انحراف کرنے پر 25 ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق)، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی اور دیگر کی جانب سے حمزہ شہباز کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کر رہے تھے۔

یکم جون کو ہونے والی آخری سماعت کے دوران پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر نے چیف جسٹس کے سامنے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل کو پیر کو (گزشتہ روز) دوبارہ اپنے دلائل شروع کرنے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کے حلف کا معاملہ: صدر، گورنر کو کیس میں فریق بنانے کی ہدایت

تاہم گزشتہ روز رجسٹرار آفس نے درخواستوں کو جسٹس شجاعت علی خان کے سامنے سپلیمنٹری کاز لسٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کو جزوی طور پر چیف جسٹس نے سنا اور ان کی درخواستوں کی منتقلی کے حوالے سے عدالت کی جانب سے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔

جج نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ مناسب احکامات کے لیے معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کا عہدہ بچانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کی ’باغی‘ اراکین کو واپس لانے کی کوششیں

بعد ازاں جسٹس شجاعت علی خان کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ’مذکورہ حکم نامے پر دستخط کرنے سے پہلے ڈائریکٹر جنرل (جوڈیشل اینڈ کیس مینجمنٹ) نے متعلقہ معاملات سمیت اس پٹیشن کی اس بینچ کے پاس منتقلی کے حوالے سے معزز چیف جسٹس کے جاری کیے گئے حکم نامے کی ایک نقل پیش کی۔‘

جسٹس شجاعت علی خان نے اپنے گزشتہ حکم نامے کا حوالہ دیا اور اسے 26 جون کو اپنی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے دفتر کو ہدایت دی۔

اس معاملے میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز پہلے ہی درخواستوں کا تحریری جواب داخل کر چکے ہیں جس میں کہا گیا کہ منحرف ہونے والوں کے ووٹوں پر سپریم کورٹ کی رائے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ضمانت میں 11 جون تک توسیع

ایڈووکیٹ خالد اسحٰق کے توسط سے داخل کردہ جواب میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پارلیمنٹیرینز کے انحراف سے متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ جاری کیے جانے سے پہلے ہی حمزہ شہباز کا انتخاب ہو چکا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کی رائے سے پہلے ہوا تھا اور یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے قانون کی کسی بھی تشریح کا اطلاق سابقہ معاملات پر نہیں ہوتا جب تک کہ اس حوالے سے واضح طور پر احکامات جاری نہ کیے جائیں۔

اس میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس کا تعلق وزیر اعظم کے انتخاب میں عدم اعتماد کے ووٹ سے ہے۔

دوسری جانب بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ کی رائے کا منحرف اراکین کے سابقہ ووٹوں پر بھی اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب عدالتیں کسی قانون کی تشریح کرتی ہیں تو درحقیقت یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے اور جس دن سے یہ قانون وجود میں آیا، اس روز سے اس کی کیا مراد لی جانی چاہیے تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں