کراچی: بلوچ طلبا کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 28 افراد زیر حراست

اپ ڈیٹ 14 جون 2022
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ
 4 روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ 4 روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ  4روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ 4روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ  4روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ 4روز سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ 4روز سے کراچی پر کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز
لواحقین و سول سوسائٹی تنظیموں نے گزشتہ 4روز سے کراچی پر کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا علی رکھا تھا—فوٹو:امتیاز

پولیس نے کراچی یونیورسٹی کے ’لاپتا‘ بلوچ طلبہ اور ’جبری گمشدگیوں‘ کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے حق میں سندھ اسمبلی کے مرکزی گیٹ کے قریب مظاہرہ کرنے والی خواتین سمیت 28 افراد کو حراست میں لے لیا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے 2 طالب علم ڈوڈا بلوچ او غمشاد بلوچ کو 7 جون کو گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور اس کے بعد سے ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔

ان کے اہلِ خانہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے گزشتہ 4 روز سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا اور اتوار کی شام پریس کلب سے صوبائی اسمبلی تک احتجاجی ریلی بھی نکالی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر مظاہرہ

پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے بات چیت کی، انہیں جگہ خالی کرنے پر آمادہ کیا جب کہ آج بروز پیر صوبائی اسمبلی میں بجٹ اجلاس ہونا تھا۔

ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے پیر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 19 مرد اور 9 خواتین کو حراست میں لیا جب کہ پولیس افسر نے اس بات سے انکار کیا کہ مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین پولیس اہلکاروں نے خواتین مظاہرین کو حراست میں لیا۔

اس دوران احتجاج کے منتظمین نے پولیس پر خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا۔

مزید پڑھیں: کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار بلوچ طالب علم رہا

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس لاپتا طالب علموں کے لواحقین کی محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں سے ملاقات کرانے کے اپنے وعدے سے مکر گئی، اس لیے انہوں نے دوبارہ سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دھرنا دیا جہاں پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لیا۔

قبل ازیں تقریباً 120 سے 130 رشتہ داروں اور مختلف تنظیموں کے ارکان، جن میں سماجی کارکنان سیمی دین بلوچ، عبدالوہاب بلوچ، آمنہ بلوچ، نغمہ شیخ اور دیگر شامل تھے، انہوں نے شام 4 بج کر 50 منٹ پر کے پی سی سے اسمبلی کی عمارت کی جانب اپنا مارچ دوبارہ شروع کیا جہاں بجٹ اجلاس جاری تھا، سرور شہید روڈ سے گزرتے ہوئے انہوں نے اسمبلی کے گیٹ کے سامنے دھرنا دیا۔

وہاں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سیمی بلوچ نے کہا کہ طلبہ کو لے جانا تعلیمی اداروں کے کردار کے قتل کے مترادف ہے۔

سیمی دین بلوچ نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب پر زور دیا کہ وہ دونوں طالب علموں کو بازیاب کرائیں، انہوں نے اعلان کیا کہ مظاہرین لاپتا طلبہ کی رہائی تک اسمبلی کے باہر اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی دھماکا: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے مشتبہ شخص زیر حراست

دوسری جانب سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی ہے اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایسا سلوک انتہائی پریشان کن ہے۔فرحت اللہ بابر

پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے غیر متناسب طاقت کے استعمال اور خواتین کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسا سلوک انتہائی پریشان کن ہے۔

انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے صورتحال کو بربریت قرار دیا۔

ایم پی اے ثناء اللہ بلوچ نے سندھ پولیس کی جانب سے بے گناہ اور پرامن بلوچ خواتین اور طالبات کے خلاف تشدد کے شدید اور غیر انسانی فعل کی شدید مذمت کی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت واقعے کی تحقیقات کرے۔

قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ سندھ کی سرزمین بلوچ برادری کے خلاف تشدد کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں