کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار بلوچ طالب علم رہا

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں بیبگار کے کے لیے ان کے کزن نے درخواست دائر کی تھی — فوٹو: ٹوئٹر
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں بیبگار کے کے لیے ان کے کزن نے درخواست دائر کی تھی — فوٹو: ٹوئٹر

کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیے جانے والے بلوچ طالب علم بیبگار امداد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رہا کردیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بلوچ کونسل کے چیئرپرسن احسان بلوچ نے بتایا کہ بیبگار امداد کو 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں خودکش دھماکے کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں نے حراست میں لیا تھا۔

بیبگار امداد کا تعلق بلوچستان کے علاقے کیچ سے ہے اور وہ اس وقت اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں ساتویں سیمسٹر میں زیر تعلیم ہیں، ان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 27 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی سے اس وقت حراست میں لیا تھا جبکہ وہ ہاسٹل نمبر 7 میں مقیم اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے آیا تھا۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی دھماکا: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے مشتبہ شخص زیر حراست

اس کے بعد بلوچ کونسل کے کارکنان بیبگار کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر دھرنا دے دیا تھا دیا، جبکہ دیگر سماجی کارکنان نے بھی دھرنے میں شرکت کرکے طالب علم کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

احسان بلوچ نے کہا کہ اب وہ اپنا دھرنا ختم کر کے پریس کانفرنس کریں گے۔

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں بیبگار کے کے لیے ان کے کزن نے درخواست دائر کی تھی، پیر کو سٹی پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ببگار امداد کو کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے۔

یہ بات سٹی پولیس کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتائی گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کرنل (ر) عبداللہ سے لاہور پولیس نے طالب علم کی مبینہ گمشدگی پر داخل کی گئی درخواست کی تصدیق کرنے کے حوالے سے رابطہ کیا تھا، جس پر سیکیورٹی افسر نے تصدیق کی تھی کہ طالب علم کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی میں خود کش دھماکا، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد جاں بحق

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سیکیورٹی افسر نے بیبگار کی گرفتاری میں پولیس کی مدد کی تھی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل اسد جمال نے پولیس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد بیبگار امداد کی لاہور سے کراچی منتقلی پر مختلف قانونی نقاط پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ طالب علم کی صرف گرفتاری ہی نہیں بلکہ عدالت سے ٹرانزٹ ریمانڈ کے بغیر ان کا کراچی منتقل ہونا بھی غیر قانونی ہے۔

پیشرفت سے باخبر ذرائع کے مطابق بیبگار کی بازیابی کے لیے دائر کی گئی درخواست منگل کو واپس لے لی گئی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچ طلبہ کو اٹھانا پاکستان میں ایک دیرینہ مسئلہ بن گیا ہے اور 2020 میں بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک بریفنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے جبری اور رضاکارانہ گمشدگی سے متعلق ورکنگ گروپ کو 1980 اور 2019 کے درمیان پاکستان سے جبری گمشدگیوں کے الزامات کے ایک ہزار 144 کیسز موصول ہوئے، زیادہ تر گمشدگیاں 2015 سے 2016 کے درمیان ہوئی ہیں جبکہ ان میں سے 731 ایسے کیسز ہیں جو 2019 تک واضح نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا گیا

کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے مسلسل رپورٹس پر اپنے بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بلوچ عوام کی جائز شکایات کے جلد حل کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ ان کے حل کی توقع نہیں رکھ سکتی۔

2020 میں قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں بلوچستان سے کم از کم 5 ہزار افراد جبری طور پر گمشدہ ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں