ایف بی آر کو بڑے تاجروں کے بجلی، گیس کے کنیکشنز کاٹنے کا اختیار دے دیا گیا

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
ٹیکس کے لیے رجسٹریشن نہ کرانے پر ایف بی آر کارروائی کرے گا — فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
ٹیکس کے لیے رجسٹریشن نہ کرانے پر ایف بی آر کارروائی کرے گا — فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے وفاقی بجٹ پر کچھ تحریری اعتراضات موصول ہونے کے بعد وزارت اقتصادی امور نے پارلیمنٹ میں رعایتی بین الاقوامی قرضوں، گرانٹس اور کنسلٹنسیز کو جنرل سیلز ٹیکس سے مشروط کرنے پر احتجاج کیا کیونکہ قرض دینے والے کترا رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تمام 29 ہزار جیولرز کو مربوط پوائنٹس آف سیل (پی او ایس) کے ذریعے لازمی جنرل سیلز ٹیکس کی تعمیل میں لانے اور 23 لاکھ سے زیادہ (ٹائر-1) درجہ اول کے تاجروں کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹریشن نہ کرانے یا پوائنٹ آف سیلز کے ساتھ لنک کرنے میں ناکامی پر ان کے بجلی اور گیس کنیکشن منقطع کرنے کے اختیارات کی منظوری حاصل کرلی۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوئے اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک میں 29 ہزار جیولرز ہیں لیکن صرف 22 رجسٹرڈ اور پوائنٹ آف سیلز کے ساتھ مربوط ہیں جو کہ امتیازی ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ’سماجی تحفظ‘ کے اقدامات پر کام کرنے کو تیار

ٹیکس حکام نے کہا کہ تمام جیولرز یہاں تک کے چھوٹی دکانوں میں بھی کاروبار کرنے والے تاجر قیمتی اور مہنگی مصنوعات کی وجہ سے پہلے درجے کے تاجروں کے زمرے میں آتے ہیں اور سب کو سیلز ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا۔

نیز تقریباً 23 لاکھ خوردہ فروش یا تاجر جن کی شناخت پہلے درجے کے تاجروں کے طور پر ہوئی ہے، اس وقت غیر رجسٹرڈ ہیں، ان پر 30 ہزار روپے ماہانہ بجلی کے بل کی بنیاد پر 3 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس عائد کیا جائے گا جو بل بڑھتے ہی 10 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تک بڑھ جائے گا۔

ایف بی آر کے بورڈ کو نئے بجٹ کے تحت بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس کی شرح 50 ہزار روپے ماہانہ تک بڑھانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے، اگر یہ بڑے خوردہ فروش ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ رجسٹرڈ یا مربوط ہونے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ بجلی اور گیس کنیکشن منقطع کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔

چیئرمین عاصم احمد کی سربراہی میں ایف بی آر کی ٹیم نے بھی کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا کہ پارلیمنٹ کے سامنے بحث کے لیے پیش کیا گیا فنانس بل کا مسودہ وفاقی کابینہ کے منظور کردہ مسودے سے بالکل مختلف تھا کیونکہ فنانس بل کے مسودے کے چھپے جانے اور پارلیمنٹ میں جمع کرائے جانے کے بعد کچھ تبدیلیاں کرنی پڑی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا بجٹ کے حوالے سے مزید اضافی اقدامات کا مطالب

تاہم انہوں نے کمیٹی میں بحث کے دوران ایک اپڈیٹڈ مسودہ لانے کرنے کا وعدہ کیا۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ کے بعض اقدامات بالخصوص ذاتی انکم ٹیکس سے متعلق تحریری اعتراضات اٹھائے ہیں جس میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو 12 لاکھ روپے سالانہ تک بڑھا دیا گیا تھا اور زیادہ کمانے والوں پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی۔

ان عہدیداروں نے کہا کہ حکومت مختلف اقدامات میں مصروف ہے اور چاہتی ہے کہ سب سے کم آمدنی والے سلیب کو ٹیکس کے بوجھ سے ہر ممکن حد تک محفوظ رکھا جائے اور 50 سے 60 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدن والے افراد پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا عندیہ دیا۔

تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدام کے محصولات پر اثرات تسلی بخش ثابت نہیں ہوسکتے کیونکہ 12 لاکھ آمدنی کے زمرے میں آنے والے بڑے طبقے کے مقابلے میں زیادہ آمدن والے زمروں میں کم لوگ آتے ہیں، اس فرق کو پورا کرنے کے لیے کچھ دیگر مراعات اور دیگر شعبوں کی آمدنی پر غور کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ حکومت نے انکم ٹیکس اصلاحات کا عزم کیا تاکہ اضافی ریونیو میں تقریباً 125 ارب روپے حاصل کیے جا سکیں لیکن بجٹ 23-2022 میں کیے گئے اقدامات نے موجودہ انکم ٹیکس کی پیداوار میں بھی تقریباً 45 ارب روپے کی کمی کر دی۔

مزید پڑھیں: معیشت کو سہارا دینے کیلئے لاٹری اسکیم کی تجویز زیر غور

وزارت اقتصادی امور نے شکایت کی کہ کچھ بین الاقوامی عطیہ دہندگان امداد فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ دیگر نے دھمکی دی ہے کہ وہ امدادی رقم سے ٹیکس کے دعوے کم کر دیں گے یا قرضوں پر اپنے ملک کے ٹیکس کو دوگنا کر دیں گے کیونکہ ٹیکس حکام غیر ملکی امداد اور متعلقہ کنسلٹنسی سروسز کے خلاف ٹیکس کے دعوے بڑھا رہے ہیں۔

سینیٹرز نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ حکومتی وزارتیں پالیسی معاملات کو حکومتی سطح پر حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں لارہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں