کمرشل بینکوں کو سرکاری اداروں کے صفر بیلنس والے اکاؤنٹس بند کرنے کا حکم

17 جون 2022
نانس ڈویژن نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے وفاقی حکومت کے اداروں کے زیر انتظام تمام اکاؤنٹس کی معلومات اکٹھی کیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
نانس ڈویژن نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے وفاقی حکومت کے اداروں کے زیر انتظام تمام اکاؤنٹس کی معلومات اکٹھی کیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی حکومت نے تمام کمرشل بینکوں کو پبلک سیکٹر اداروں کے ایسے اکاؤنٹس بند کرنے کی ہدایت کی ہے جن کا بیلنس صفر ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ہدایت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے جاری کی گئی تھی اور اس کے بعد 18 مئی کو اسی سے متعلق ایک یادداشت بھیجی گئی جس میں حکومت نے تمام وزارتوں، ڈویژنوں، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں اور ان کے پبلک سیکٹر اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنا ورکنگ کیپیٹل اور سرمایہ کاری کے لیے رکھے گئے فاضل فنڈز فوری طور پر وفاق کے واحد خزانہ اکاؤنٹ کے سپرد کر دیں۔

ان تمام اداروں بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے رجسٹرار، سینیٹ، قومی اسمبلی اور ملٹری اکاؤنٹس، کو گزشتہ ماہ وزارت خزانہ نے ہدایت کی تھی کہ جولائی 2003 کے بعد کے وہ تمام نوٹیفکیشنز جو ایسے اداروں کو اپنے اکاؤنٹس میں اضافی فنڈز اور ورکنگ کیپیٹل رکھنے کی اجازت دیتے ہیں’فوری طور پر واپس لے لیے گئے‘۔

یہ بھی پڑھیں:وفاقی حکومت کی وزارتوں، صوبوں کو فاضل رقم سے دستبردار ہونے کی ہدایت

18 مئی کے اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ورکنگ بیلنس رکھنے کے حوالے سے کسی بھی پبلک سیکٹر کے اداروں کو دی گئی منظوری بھی واپس لے لی جاتی ہے‘۔

بعدازاں 11 جون کو بینکوں کے لیے جاری کردہ ایک نئے نوٹیفکیشن میں وزارت خزانہ نے خواہش کی کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کی منظوری کے بعد 2020 میں شروع ہونے والے عمل نے اسٹیٹ بینک اور بین الاقوامی قرض دینے والی اداروں کی مشاورت سے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت کے کیش بیلنس کو مستحکم کرنے کے مقصد سے ’فنانس ڈویژن نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے وفاقی حکومت کے اداروں کے زیر انتظام تمام اکاؤنٹس کی معلومات اکٹھی کی ہیں‘۔

اس معلومات کے تجزیے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ شیڈول کمرشل بینکوں میں زیرو بیلنس والے اکاؤنٹس میں سے ہزاروں غیر فعال ہیں اور زیرو بیلنس والے اکاؤنٹس موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: صوبوں کو وفاق سے ملنے والے حصے کی رقم میں 17فیصد اضافہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 78 کے تحت تمام محصولات، قرض کی وصولی اور حکومت پاکستان کو یا اس کی جانب سے موصول ہونے والی تمام رقوم فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (ایف سی ایف) یا فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ (پی اے ایف) کا کا حصہ ہوں گے۔

ایف سی ایف اور پی اے ایف دونوں کے کیش بیلنس اسٹیٹ بینک کے مرکزی اکاؤنٹ نمبر 1 (نان فوڈ) میں رکھے جاتے ہیں۔

پبلک فنانس مینجمنٹ(پی ایف ایم) ایکٹ 2019 کے تحت ایف سی ایف اورپی اے ایف کے افعال خزانہ ڈویژن کے زیر انتظام ہیں، قانون سیکشن 23(2) کے تحت یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کسی سرکاری اکاؤنٹ سے کسی دوسرے بینک اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری یا جمع کرنے کے لیے عوامی رقم منتقل نہیں کرے گی۔

اس کے بعد، حکومت نے کیش مینجمنٹ اور ٹریژری سنگل اکاؤنٹ پالیسی29-2019 اور کیش مینجمنٹ اینڈ ٹریژری سنگل اکاؤنٹ رولز 2020 بھی نوٹیفائیڈ کیے۔

یہ بھی پڑھیں: بینک سے 25 ہزار روپے سے زائد رقم بھیجنے پر فیس عائد

جس کے تحت ’کوئی بھی سرکاری دفتر پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کے علاوہ کسی بھی مقصد کے لیے کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولے گا، چلا سکے گا اور نہ ہی برقرار رکھے گا اور یہ کہ ’ان قواعد سے پہلے فنانس ڈویژن کی جانب سے سرکاری دفاتر کے ذریعے شیڈول بینکوں میں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دی گئی کوئی بھی منظوری ان قواعد کے نافذ ہونے پر منسوخ ہو گئی ہے‘۔

ان قوانین کے تحت پہلے سے کھولے گئے کھاتوں کو بند کرنا اور اگر کوئی بیلنس ہو تو اسے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل کیا جانا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں