پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی نہ فیصلہ دے سکتی ہے، اسد قیصر

14 جولائ 2022
اسد قیصر نے کہا کہ آئین میں تمام چیزیں واضح ہیں اور آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی — فائل فوٹو: اے پی پی
اسد قیصر نے کہا کہ آئین میں تمام چیزیں واضح ہیں اور آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی — فائل فوٹو: اے پی پی

سابق اسپیکر قومی اسمبلی و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی اور اسمبلی کی کارروائی کا احاطہ بھی عدالت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔

لاہور میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ جلد از جلد اس پٹیشن پر سماعت کریں اور فیصلے پر جو ہمیں اعتراضات ہیں وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ہر ادارے کے لیے دائرہ اختیار طے کیا گیا ہے اور ہم نے جو بھی کام کیا ہے وہ آئین کے تحت کیا ہے، کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جو آئین کے خلاف ہو کیونکہ ہم قانون پر یقین رکھتے ہیں، کبھی بھی کوئی کام قانون سے ماورا نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ آئین میں تمام چیزیں واضح ہیں اور آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی اور اسمبلی کی کارروائی کا احاطہ بھی عدالت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے تو ہمیں اس بات پر بھی اعتراضات ہیں۔

اسد قیصر نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں ایک مقبول سیاسی جماعت بن گئی ہے اور جس طرح عمران خان کے جلسے ہو رہے ہیں وہ ریفرنڈم ہیں اور اتنے بڑے جلسے کوئی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ سیاسی پارٹی کی نمائندہ بنی ہوئی ہے اور ان کے دفاتر بھی سیاسی جماعتوں کے دفاتر بنے ہوئے ہیں اور جس طرح وہ سوچ رہے ہیں کہ دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتیں گے اور اس کے لیے وہ حکومتی وسائل کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کروا رہے ہیں، لوگوں سے وعدے کر رہے ہیں تو ہم اس چیز کی مذمت کرتے ہیں اور یہ لوگ جتنا کر سکتے ہیں کر لیں مگر عوام عمران خان کا ساتھ دیں گے اور 20 سیٹیں ہی تحریک انصاف جیتے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پتا چلا ہے کہ حکومت، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کر رہی ہے مگر یہ الیکشن کے لیے صرف عارضی ڈراما کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ لیوی عائد کریں گے اور الیکشن کے بعد واپس اسی حالت میں آجائیں گے۔

سابق اسپیکر نے کہا کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور حکومت نے اس پر لیوی ٹیکس عائد کیا ہوا ہے تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ٹیکس واپس لیا جائے اور عالمی منڈیوں کی قیمتوں کے حساب سے تیل فروخت کیا جائے، پھر ہم سمجھیں گے کہ یہ انصاف کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع

انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحادی جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور ملک کو امریکا کی کالونی بنایا ہوا ہے اور جو مینڈیٹ عوام نے ہمیں دیا تھا وہ ان لوگوں نے ایک سازش سے ہم سے چھینا ہے، مگر جس طرح انہوں نے ملک کو دیوالیہ کیا ہے ان سے حساب لیا جائے گا۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما محمود الرشید نے کہا کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) لاہور کو اپنا تخت سمجھتی تھی اب وہ گھبراہٹ کا شکار ہے اور پورے پنجاب میں تحریک انصاف کی لہر پیدا ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی

انہوں نے کہا کہ اب یہ لوگ پولیس، تھانوں اور ایجنسیوں کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے سرگرم کارکنان کو تھانوں میں بلا کر ان سے بیان حلفی لیے جارہے ہیں، مگر میں آئی جی پنجاب پولیس اور سی سی پی او لاہور کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کا ماحول بنایا ہوا ہے انتخابات والے دن کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے اور ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات سے بھرا ہوا ہے، فواد چوہدری

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ماضی میں اچھے فیصلے دیے لیکن قاسم سوری کے فیصلے کو تضادات سے بھرپور قرار دیا۔

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سائفر کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک منتخب اسمبلی کے قیام کے بعد فیصلہ پیش کیا جائے گا اور بالآخر منسوخ کردیا جائے گا۔

انہوں نے موجودہ قانون ساز اسمبلی کو ایک 'مقبوضہ پارلیمنٹ' قرار دیا جس میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی نمائندگی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ‘نامعلوم فون نمبرز’ سے ‘دھمکی آمیز’ کالز کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 69 کہتا ہے کہ عدالتیں، پارلیمنٹ کی کارروائیوں کی انکوائری نہیں کرتیں۔

فواد چوہدری نے ججوں پر زور دیا کہ وہ احتیاط برتیں اور 'پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت' کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور سیاسی فیصلے سیاسی میدان میں ہونے دیں'۔

جسٹس مظاہر عالم خان میاں خیل کے اضافی نوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں معزز جج کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ آرٹیکل 6 کے تحت لوگوں کو سزا دینا شروع کر دیں تو رسی کی کمی ہو جائے گی کیونکہ پھانسی کے لیے بہت گردنیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا آپ کا کام نہیں ہے جب تک کہ آپ ایسا کرنے کے مشن پر نہ ہوں، دوسری صورت میں ہمیں بتانا پڑے گا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔

اپنی اس بات کی وضاحت کیے بغیر فواد چوہدری نے ججوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ’سیاسی فیصلے‘ کرتی رہی ہے، بدقسمتی سے یہ پاکستان کی تاریخ ہے، لیکن یہ نظام تبدیل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے میڈیا انقلاب کے بعد اس طرح جاری نہیں رہ سکتا، لوگوں کو فیصلہ کرنے کا حق دینا پڑے گا، جج اور جرنیل بند دروازوں کے پیچھے فیصلے جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ اب قوم انقلاب کے لیے تیار ہے۔

سابق وفاقی وزیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر عارف علوی پہلے ہی خط بھیج چکے ہیں جس میں سائفر کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی ہے، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: گرینڈ ڈائیلاگ ہو سکتا ہے مگر پہلے انتخابات کی تاریخ دیں، فواد چوہدری

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے 'سی این این' کو انٹرویو کے دوران اعتراف کیا کہ امریکا دیگر ممالک میں بغاوتیں پیدا کر رہا ہے لیکن ہماری سپریم کورٹ اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، ہم مواد پیش کر رہے ہیں لیکن آپ (جج) اسے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف آپ یہ کہہ کر فیصلہ دیتے ہیں کہ مواد پیش نہیں کیا گیا، لہٰذا آپ یا تو مواد کو دیکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں یا آپ اسے دیکھتے نہیں اور سیاسی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے تفصیلی فیصلے کے وقت پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں صرف دو دن باقی ہیں، آپ نے اسے چار مہینے تک روکے رکھا، دو دن مزید روک سکتے تھے لیکن یہ آپ پر منحصر ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سائفر کی تحقیقات کی جائیں اور دعویٰ کیا کہ سائفر بند لفافے میں چیف جسٹس کو پہنچایا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سائفر پیش نہیں کیا گیا، ججز کو چیف جسٹس سے پوچھنا چاہیے کہ سائفر کو کیوں پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، فواد چوہدری

پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کے دور میں جب (ن) لیگ ججوں، اداروں اور فوج کے خلاف بیانات جاری کرتی تھی تو انہیں ’غدار‘ کہا جاتا تھا لیکن پی ٹی آئی آج وہی کر رہی ہے، جس پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ کوئی ملک ججوں اور جرنیلوں کے بغیر نہیں چل سکتا، اسٹیبلشمنٹ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے 3 اپریل کو متنازع فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے اپنے فیصلے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں