وزیر داخلہ کی گورنر راج کی بونگیاں شرمناک ہیں، ان کو سمجھ نہیں کیا بات کر رہے ہیں، فواد چوہدری

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2022
فواد چوہدری  نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ناراض لیگ بننے کی احمقانہ پالیسی پر گامزن ہے — فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ناراض لیگ بننے کی احمقانہ پالیسی پر گامزن ہے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی گورنر راج کی بونگیاں شرمناک ہیں، ان کو سمجھ نہیں کیا بات کر رہے ہیں، رانا ثنااللہ رولز پڑھ لیں کن حالات میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب اور دیگر کا جو رویہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیاسی طور پر عقل سے پیدل لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں شامل اس طرح کے زیادہ تر لوگ غیر سیاسی ہیں، ان میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، رانا ثنااللہ کی کچھ دیر قبل کی گئی پریس کانفرنس دیکھ کر شرم آتی ہے کہ اس طرح کے لوگ ملک کے اتنے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا ایک حکم آیا ہے، اس پر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم گورنر راج نافذ کردیں گے، میں ان کو اتنا مشورہ دوں گا کہ اپنے وزیر قانون کے ساتھ قانون کی گورنر رول سے متعلق شق کو پڑھ لیں تاکہ آپ کو پتا چل جائے کہ گورنر راج کن حالات میں لگایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ پر براہ راست حملہ کیا گیا، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ اس طرح کی بونگیاں مار رہے ہیں، ان کو سمجھ نہیں ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ایک تاریخی فیصلہ دیا، جج صاحبان نے جس طرح سے سیاسی دباؤ اور دھمکیوں کا مقابلہ کیا، ججز کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں بہت کم اس طرح کا مضبوط ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہی وہ بینچ تھا جس نے 3 ماہ قبل وہ فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کو حکومت چھوڑ کر جانا پڑا تھا، ہمارے اس فیصلے پر بڑے تحفظات ہیں لیکن یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم کہیں کہ سپریم کورٹ کو ہی نہیں مانتے، جیسا کہ موجودہ حکومت کے وزیر قانون نے کہا اور بعد میں پیچھے ہٹ گئے لیکن اس حکومت کے ادارے اور عزائم یہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک احمقانہ پالیسی پر گامزن ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں ناراض لیگ بننا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ ناراض لیگ بن کر ان کو بیانیہ مل جائے گا لیکن ایسا ہوگا نہیں، پاکستان کے عوام کو مستقبل کا ایک لائحہ عمل اور منشور چاہیے۔

مزید پڑھیں: عدالتی فیصلوں پر تنقید کا حق ہے لیکن دھمکیاں نہیں دے سکتے، فواد چوہدری

فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف اور پوری مسلم لیگ (ن) اس وقت دباؤ کا شکار ہے، ان کو حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چھوٹی اور گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں، رات کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری پی ٹی وی پر نشر نہیں کی گئی، بیوروکریسی کو ایوان صدر جانے سے روک دیا گیا، سیکریٹری کابینہ کو ایوان صدر جانے سے منع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کرنے والی شہباز شریف کی حکومت ایک سسکتی ہوئی حکومت ہے، اگر ہم نے ردعمل دیا تو یہ حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی، ابھی پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہے جس میں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں تبدیلی کب لانی ہے، اس وقت ہم حکومت سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ تمام جماعتیں بیٹھ کر الیکشن کا فریم ورک طے کریں، طے کریں کہ الیکشن کب ہونے ہیں، ہم طے کریں کہ صاف شفاف الیکشن ہوں جس کو تمام لوگ تسلیم کریں، موجودہ الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن ممکن نہیں ہیں، چیف الیکشن کمشنر میں ذرا بھی شرم کی کوئی رمق ہو تو ان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا مگر وہ استعفیٰ نہیں دے رہے، اس لیے ہمیں ان کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے پڑیں گے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میڈیا میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے خط پر تو ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا لیکن چوہدری شجاعت حسین کے خط پر ایکشن نہیں لیا جارہا تو میں ان صحافیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ بات کرنے سے قبل ریکارڈ کو دیکھ لیا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: چاہیں تو کل حکومت گرادیں لیکن انہیں فیصلے کا موقع دینا چاہتے ہیں، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا ہمارے ڈی سیٹ ہونے والے منحرف اراکین کو پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سبطین خان نے نوٹس جاری کیا تھا، پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کیا تھا، اس اجلاس کے منٹس بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں بھی یہ سب لکھا ہوا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اب ہونے والے کور کمیٹی اجلاس میں ہم نے یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہے کہ کب ہم نے وفاقی حکومت کو فارغ کرنا ہے، مرکزی حکومت کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، صدر مملکت اس حکومت کو کہیں ہے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیں، حکومت کو 172 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے جبکہ اس کے پاس اس وقت 163 سے زیادہ ووٹ نہیں ہیں، اس حکومت کی حالت یہ ہے کہ اس نے بجٹ صرف 95، 96 لوگوں کی حمایت کے ساتھ منظور کیا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی عمران خان سے ملاقات

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: چوہدری پرویز الہٰی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا لیا

ملاقات کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت بھی موجود تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں