عدالتی فیصلوں پر تنقید کا حق ہے لیکن دھمکیاں نہیں دے سکتے، فواد چوہدری

24 جولائ 2022
ان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے— فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر تنقید کرنا یا اختلاف رائے رکھنا لوگوں کا بنیادی حق ہے لیکن دھمکیاں تو نہیں دے سکتے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس شخص میں ریاست کی بنیادوں کی تمیز نہیں ہے، انہیں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ججز اپنی حدود میں رہیں، آپ کون ہوتے ہیں ججز کو بولنے والے، اس طرح نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلوں یا کسی بھی معاملے پر تنقید کرنا یا اختلاف رائے رکھنا لوگوں کا بنیادی حق ہے لیکن دھمکیاں تو نہیں دے سکتے کہ یہ نہیں ہوگا تو ہم یہ کر دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چاہیں تو کل حکومت گرادیں لیکن انہیں فیصلے کا موقع دینا چاہتے ہیں، فواد چوہدری

پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اعظم نذیر تارڑ پروفیشنل وکیل ہیں، صبح سے جس طرح کا رویہ ان کا رہا، سپریم کورٹ بار میں اپنے حمایتی وکیلوں کی مدد سے سپریم کورٹ کے ججز خصوصاً چیف جسٹس کے اوپر تنیقد کروا رہے ہیں، ہمیں اس کی سمجھ ہی نہیں آرہی۔

‘عدالتی فیصلوں کی وجہ سے حمزہ شہباز ہمارے اوپر مسلط ہیں’

ان کا کہنا تھا کہ تنقید تو ہماری بنتی ہے کیونکہ حمزہ شہباز اس وقت منتخب وزیراعلیٰ نہیں ہیں، تین مہینوں سے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے وہ ہمارے اوپر مسلط ہیں، ان کی ایوان میں اکثریت نہیں ہے، ان کا انتخاب نہیں ہوا، آئین کے کس آرٹیکل کے تحت وہ وزیراعلیٰ ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ الٹا کل سے انہوں کیا کیا ہےکہ سوشل میڈیا کے 529 اکاؤنٹ ٹریک ڈاؤن ہوئے ہیں، ان اکاؤنٹس سے 11 ہزار ٹوئٹس عدلیہ کے خلاف کروائی گئیں، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال اور اعجاز الحسن صاحب کو بنیادی طور پر نشانہ بنایا گیا، اس میں عدالت کو بطور ادارہ ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: رانا ثنااللہ پر ہیروئن کا مقدمہ بنانا غلطی تھی، فواد چوہدری

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ باقاعدہ پلان کا حصہ ہے اور یہ سوچ ہے کہ مثلا 41 رکنی کابینہ نے حلف اٹھایا، یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا، ڈپٹی اسپیکر پیش نہیں ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ یہ عدالتوں کے فیصلوں کو ہوا میں اڑا رہے ہیں۔

‘فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے’

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ سپریم کورٹ جارہے ہیں کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس میں قانونی نقطے کی تشریح شامل نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی آکر ہمیں بتا دیں کہ ہمارے فیصلے کے کس حصے کے مطابق انہوں نے 10 ووٹ مسترد کیے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ کل پھر سپریم کورٹ پر حملے کا ارادرہ کرتے ہیں، ان کا ریکارڈ سپریم کورٹ اور عدالت کے بارے میں ایسا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ان کے لیے سسلین مافیا کا لفظ استعمال کیا تھا وہ بالکل درست تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مریم نواز کا مقدمہ شروع ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ویڈیوز ہیں، اس سے پہلے ملک عبدالقیوم کی ریکارڈنگ آپ کے سامنے ہے، انہوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، رفیق تارڑ نے کوئٹہ بینچ میں جا کر باقاعدہ ججوں کی خریداری کی، اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے انٹرویو میں اس کا برملا اظہار کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلے ہی سپریم کورٹ نے تین مہینے جس طرح حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب رکھا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئین کے تحت درست نہیں ہے، اس کی کوئی آئینی گنجائش نہیں ہے، ٹرسٹی، خیراتی وزیراعلیٰ تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے، قائم مقام وزیراعلیٰ یا وزیراعلیٰ ہوں گے یا پھر نہیں ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘نامعلوم فون نمبرز’ سے ‘دھمکی آمیز’ کالز کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، فواد چوہدری

پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ اگر صبح سپریم کورٹ کی سماعت میں خلل پیدا کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے ججوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے تو اس پر ہمیں بڑی تشویش ہے، ہمیں کوئی راست اقدام سوچنے پڑیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آئین کی حدود میں رہ کر گفتگو کیا کریں، آپ کی زبان اور لہجہ مناسب نہیں ہے، اس طرح اداروں کو دھمکی دینی ہے، فضل الرحمٰن اور ان کا خاندان چند ہزار کروڑ کی چھوٹی سی کرپشن میں ملوث تھا، نیب نے انہیں بلایا، انہوں نے نیب کو دھمکایا جس کے بعد نیب نے انہیں نہیں بلایا، اب یہ سپریم کورٹ کو دھمکی دے رہے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتحال کا واحد حل انتخابات ہیں، ہمیں انتخابات کی جانب بڑھنا چاہیے، نئے الیکشن کے فریم ورک کے لیے الیکشن کمیشن میں بات چیت ہونی چاہیےجلد از جلد الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے، جلد از جلد الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہونی چاہیے اور عام انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں