پنجاب اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کیلئے رسہ کشی

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2022
نئے حکومتی اتحاد نے فی الحال اسپیکر کے عہدے کے لیے سبطین خان کا نام فائنل کیا ہے— فوٹو: فیس بک
نئے حکومتی اتحاد نے فی الحال اسپیکر کے عہدے کے لیے سبطین خان کا نام فائنل کیا ہے— فوٹو: فیس بک

پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے نئے حکمراں اتحاد اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، راہ حق اور کچھ آزاد ارکان اسمبلی پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے صوبائی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے حصول کے لیے مشاورت کا عمل تیز کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئے حکومتی اتحاد نے فی الحال اسپیکر کے عہدے کے لیے سبطین خان کا نام فائنل کیا ہے تاہم حتمی فیصلہ آج کیے جانے کا امکان ہے جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاہور پہنچیں گے تاکہ پرویز الہٰی کی کابینہ کے ارکان کو بھی حتمی شکل دی جاسکے۔

شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی، محمود الرشید، سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور میاں اسلم اقبال بھی اسپیکر کے عہدے کے خواہشمند ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ سونپا جاسکتا ہے کیونکہ حکمراں اتحاد موجودہ ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے وزیر جنگلات سبطین خان کرپشن کے الزام میں گرفتار

دریں اثنا پنجاب کی مستقبل کی سیاست پر مشاورت کے لیے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی نمائندوں کا اجلاس ہوا۔

نئے وزیر اعلیٰ کو ٹف ٹائم دینے کے فیصلے کے علاوہ اجلاس میں اسپیکر کے عہدے کے لیے ممکنہ امیدواروں کے طور پر سابق اسپیکر رانا اقبال، سردار اویس لغاری اور ملک ندیم کامران کے ناموں پر غور بھی کیا گیا۔

اجلاس میں دوست محمد مزاری کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا اور منصوبے کی ناکامی کی صورت میں تمام اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اس عہدے کے لیے نئے امیدوار کا انتخاب کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر سبطین خان کے خلاف نیب ریفرنس دائر

دریں اثنا سابق وزیر داخلہ پنجاب اور وزیر اعظم کے نئے معاون خصوصی عطا تارڑ نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے دہرا معیار اپنایا گیا۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عوام پہلی بار ایک ’عدالتی‘ وزیر اعلیٰ کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ آئینی اور قانونی طور پر منتخب وزیر اعلیٰ کو عدالتی حکم کے ذریعے ہٹا دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'عدالتی' وزیراعلیٰ کے خلاف مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں