سوات: سیکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے بازی، مظاہرین پر مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 15 اگست 2022
ایف آئی آر نعرے بازی کرنے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے پر درج کی گئی— فائل فوٹو: فضل خالق
ایف آئی آر نعرے بازی کرنے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے پر درج کی گئی— فائل فوٹو: فضل خالق

پولیس نے ضلع سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں 'پرامن احتجاج' کے کچھ شرکا کے خلاف مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر زاہد نواز مروت کے مطابق ایف آئی آر اس لیے درج کی گئی کیونکہ کچھ شرکا نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگائے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیں: سوات: پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی تلاش جاری

ڈی پی او نے دعویٰ کیا کہ ان شرکا نے ریاستی اداروں کو بھی گالی دی اور جو لوگ ریاستی اداروں کو بدنام کرتے ہیں ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔

ڈی پی او نے ایف آئی آر کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں اور کہا کہ وہ علاقے میں ’عسکریت پسندوں‘ کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن میں حصہ لینے کے لیے میدان عمل میں تھے۔

قبل ازیں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے سوات میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے انتشار سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا تھا کہ سوات اور دیر کے درمیان چند پہاڑی چوٹیوں پر آبادی سے کافی دور چند مسلح افراد کو دیکھا گیا ہے، بظاہر یہ افراد اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے افغانستان سے چھپ کر آئے تھے لیکن پہاڑوں میں ان کی محدود تعداد میں موجودگی اور نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ایف آئی آر میں نامزد افراد کے اہل خانہ کے مطابق مقدمہ ایم پی او کی دفعہ 16، اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 504، 506، 149اے، 124اے، 124بی وغیرہ کے تحت درج کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس کا سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف

دریں اثنا سول سوسائٹی کے ارکان نے پولیس کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’غیر منصفانہ اور غیر قانونی اقدام‘ قرار دیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 8 اگست کو سوات اور دیر کے اضلاع کی سرحد سے متصل تحصیل مٹہ کے پہاڑوں میں عسکریت پسندوں کی حالیہ موجودگی کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی۔

سوات قومی جرگہ کے ترجمان خورشید کاکا نے کہا کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر نامعلوم افراد کی طرف سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ایک شخص کو طالبان عسکریت پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہ مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی پیر سید اور دو سیکورٹی افسران کا انٹرویو کر رہا ہے۔

ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اعتراف کیا گیا کہ مٹہ سرکل کے ڈی ایس پی تحصیل مٹہ کے کنالہ پہاڑوں میں کچھ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پیش رفت کے ردعمل میں سوات کے ہزاروں لوگوں نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مذمت میں ایک ریلی نکالی۔

جرگہ ترجمان کا کہنا تھا کہ سوات کے لوگ برسوں کی عسکریت پسندی سے بری طرح متاثر رہے ہیں، کسی کو بھی محنت سے حاصل ہونے والے امن کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پولیس نے ایک طالبعلم غیرت یوسفزئی اور ریلی کے کچھ دیگر شرکا کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، اور الزام لگایا کہ پولیس مقدمے میں نامزد افراد کے اہل خانہ کو ایف آئی آر نہیں دکھا رہی۔

مزید پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

وکلا نے بھی پولیس کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا، کریم شلمانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار، جلسے اور جلوس نکالنے اور بولنے اور لکھنے کے حقوق کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ عسکریت پسندوں کے دوبارہ منظر عام پر آنے پر مشتعل تھے اور انہوں نے پرامن احتجاج میں اپنے غصے کا اظہار کیا۔

سول سوسائٹی کے ارکان نے خبردار کیا کہ پرامن مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطلب لوگوں کو پولیس کے خلاف اکسانا ہو گا۔

سوات بھر میں صورتحال معمول پر ہے، لوگوں نے بتایا کہ تحصیل مٹہ کے پہاڑوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز موجود ہیں لیکن انہیں گولیوں کی آواز سنائی نہیں دی۔

تبصرے (0) بند ہیں