سپریم کورٹ: بجلی کے بلوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ واپس لینے کی درخواست دائر

25 اگست 2022
ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹو نے مفاد عامہ کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹو نے مفاد عامہ کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

بجلی کے مہنگے بلوں کے خلاف عام عوام اور تاجروں کے روزانہ ہونے والے احتجاج کے تناظر میں ایک مقامی وکیل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور وفاقی حکومت کو یوٹیلیٹی بلوں سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کے چارجز اور دیگر سرچارجز مکمل طور پر واپس لینے یا کم از کم کسی حد تک کم کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹو نے مفاد عامہ کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تاکہ اس کی توجہ ان بھاری بلوں کی طرف مبذول کرائی جائے جو بجلی کمپنیوں نے جولائی-اگست کے دوران صارفین کو بھیجے تھے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ گزشتہ چند روز کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کے صارفین بلوں میں ایف پی اے اور دیگر ٹیکسوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں کیونکہ ان کے لیے واجبات ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: بجلی کے بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ منہا کر کے باقی رقم جمع کرانے کا حکم

میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ صارفین مختلف شہروں میں مسلسل کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران اپنے بجلی کے بلوں کو نذر آتش کر رہے تھے اور ایف پی اے اور دیگر ٹیکسوں کی فوری واپسی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں کی جانب سے نئے بلوں کے اجرا تک ادائیگی نہ کرنے کا عزم کررہے ہیں۔

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت عوام دوست پالیسیاں متعارف کرانے کے بجائے بجلی کے غریب صارفین پر بھاری ٹیکس عائد کر رہی ہے جس سے متوسط طبقے کی زندگیوں میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خاندانوں کے لیے ضروریات زندگی پوری کرنا پہلے ہی مشکل ہو چکا ہے، بجلی کے بلوں میں بڑے پیمانے پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسوں نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔

پٹیشن میں زور دیا گیا تھا کہ لوگوں کی اکثریت ماہانہ 15 ہزار سے 20 ہزار روپے کماتے ہیں اور غریب علاقوں میں کرائے کے مکانوں میں زندہ گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ایک کروڑ 71 لاکھ بجلی صارفین کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج سے استثنیٰ کا اعلان

درخواست گزار نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکام نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر بجلی کے بل اس حد تک بڑھائے گئے ہیں۔

تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے برعکس حکومت پہلے سے لاکھوں میں بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے اہلکاروں کے سروس مراعات مثلاً مفت ایندھن، مکان کے کرایے اور طبی سہولیات وغیرہ میں اضافہ کر رہی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ حال ہی میں پنجاب حکومت نے ماتحت عدلیہ کے لیے مالی مراعات میں اضافہ کیا جبکہ دوسری جانب غریبوں پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔

پٹیشن میں آئین کے آرٹیکل 25 پر بھی روشنی ڈالی گئی، جو شہریوں کے لیے برابری کو یقینی بناتا ہے، تاہم اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اس آئینی ضمانت کو یقینی نہیں بنایا جا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی صارفین سے آئندہ ماہ 64 ارب روپے اضافی وصول کرنے کی تیاری

اسی طرح آرٹیکل 25 اے کہتا ہے کہ تعلیم ملک میں ہر بچے کا حق ہے لیکن بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بچوں سے اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرٹیکل 37 سماجی انصاف کے فروغ اور سماجی برائیوں کے خاتمے سے متعلق ہے لیکن بجلی کے بلوں کے ذریعے غریبوں پر اس طرح کے 'غیر منصفانہ بھاری مالی بوجھ' کی وجہ سے اس کے مقصد کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

درخواست میں آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں بھی بحث کی گئی کیونکہ پورے ملک میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں آئین میں وعدہ کردہ ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں