لیبیا: حریف گروپس میں جھڑپوں کے باعث 32 افراد ہلاک

29 اگست 2022
یہ لڑائی لیبیا کے دارالحکومت میں 2020 کی جنگ بندی کے بعد کی بدترین لڑائی تھی—تصویر: رائٹرز
یہ لڑائی لیبیا کے دارالحکومت میں 2020 کی جنگ بندی کے بعد کی بدترین لڑائی تھی—تصویر: رائٹرز

لیبیا کے دارالحکومت تریپولی میں حریف حکومتوں کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 32 افراد کی ہلاکت کے بعد پروازیں دوبارہ شروع ہو گئیں اور دکانیں دوبارہ کھل گئیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق مسلح گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلے میں کئی ہسپتالوں کو نقصان پہنچا اور عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔

جمعہ کی شام سے شروع ہونے والی یہ لڑائی لیبیا کے دارالحکومت میں 2020 کی جنگ بندی کے بعد کی بدترین لڑائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مصر کی پارلیمنٹ نے لیبیا میں ممکنہ فوجی مداخلت کی منظوری دے دی

تاہم ہفتے کی شام تک ایک محتاط سکون قائم ہو گیا اور وزارت صحت نے اتوار کی صبح کہا کہ جھڑپوں کے دوران 32 افراد ہلاک اور 159 زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ لڑائی عبدالحمید دبیبہ اور فتحی باشآغا کے حامیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد ہوئی ہے، جن کی حریف انتظامیہ شمالی افریقی ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے جہاں 2011 کی بغاوت کے بعد سے ایک دہائی سے زیادہ پر تشدد کارروائیاں جاری ہیں۔

عبدالحمید دبیبہ کی انتظامیہ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی زیرقیادت امن عمل کے ایک حصے کے طور پر دارالحکومت میں تعینات کی گئی تھی اور اب تک یہ دلیل دیتے ہوئے کہ اگلی انتظامیہ انتخابات سے آنی چاہیے، فتحی باشآغا کو وہاں اپنے عہدے پر قبضے سے روکتی رہی ہے۔

فتحی باشآغا کا تقرر رواں سال کے اوائل میں لیبیا کی مشرقی پارلیمان نے کیا تھا اور انہیں طاقتور مشرقی فوجی سربراہ خلیفہ حفتر کی حمایت حاصل ہے، جن کی 2019 میں دارالحکومت پر طاقت کے ذریعے قبضے کی کوشش ایک سال سے جاری خانہ جنگی میں بدل گئی تھی۔

مزید پڑھیں: لیبیا سے دور رہیں یا ہماری گولیوں کا سامنا کریں، لیبین کمانڈر کی ترک صدر کو وارننگ

فتحی باشآغا سابق وزیر داخلہ ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر تریپولی میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے تشدد کے استعمال کو مسترد کر دیا تھا لیکن بعد میں اشارہ دیا تھا کہ وہ طاقت کا سہارا لے سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ لیبیا 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت میں اپنے رہنما معمر قذافی کی معزولی اور ہلاکت کے بعد سے انتشار کا شکار ہے اور متعدد مسلح گروہوں و غیر ملکی طاقتیں اقتدار کے خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں۔

تازہ ترین بحران میں غیر جانبدار سمجھے جانے والے کچھ مسلح گروہ اس ہفتے کے آخر میں عبدالحمید دبیبہ کی جانب چلے گئے تاکہ فتحی باشآغا کی دارالحکومت میں داخل ہونے کی دوسری کوشش کو پیچھے دھکیل دیا جا سکے۔

اقوام متحدہ کے لیبیا مشن نے 'شہری آبادی والے محلوں میں اندھا دھند درمیانے اور بھاری گولہ باری' کی مذمت کرتے ہوئے دشمنی کے فوری خاتمے' کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا کی حکومت نے ملک بھر میں فوری جنگ بندی کا اعلان کردیا

دبیبہ کی قومی اتحادی حکومت نے کہا ہے کہ مغربی شہر میں خونریزی سے بچنے کے لیے ہونے والی بات چیت کے ختم ہونے کے بعد لڑائی چھڑ گئی تھی۔

تاہم فتحی باشآغا نے اس طرح کی بات چیت کی تردید کی اور عبدالحمید دبیبہ کی 'ناجائز' انتظامیہ پر 'اقتدار سے چمٹے رہنے' کا الزام لگایا۔

لڑائی نے کئی ایئرلائنز کو دارالحکومت کے واحد فعال ہوائی اڈے پر آنے اور جانے والی پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا تھا جبکہ اگست کے آخر میں ہونے والے ہائی اسکول کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں