لیبیا سے دور رہیں یا ہماری گولیوں کا سامنا کریں، لیبین کمانڈر کی ترک صدر کو وارننگ

اپ ڈیٹ 03 اگست 2020
خلیفہ حفتر نے ترک صدر پر الزام بھی لگایا—فائل فوٹو: اے ایف پی
خلیفہ حفتر نے ترک صدر پر الزام بھی لگایا—فائل فوٹو: اے ایف پی

لیبیا کی مشرقی فوج کے جنرل نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی فورسز کو لیبیا سے باہر رکھیں یا مسلح ردعمل کا سامنا کریں۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وارننگ تریپولی میں گورنمنٹ آف نیشنل اکورڈ (جی این اے) کے ساتھ تنازع میں لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کی سربراہی کرنے والے لیبیا کے مشرقی فوج کے جنرل خلیفہ حفتر کی جانب سے دی گئی۔

واضح رہے کہ رجب طیب اردوان نے جی این اے کے لیے لڑنے کی غرض سے شام سے ترکی کے حمایت یافتہ لوگ بھیجے ہیں جن کے پاس آرٹلری اور بھاری ہتھیار ہیں اور انہوں نے رخ کو اپنے حق میں بدل دیا ہے۔

مزید پڑھیں: لیبیا میں مصر کی کارروائیاں 'غیر قانونی' ہیں، رجب طیب اردوان

حفتر نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر فوج سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر پر 'اپنے آباؤ اجداد کی میراث کی تلاش کے لیے لیبیا آنے' کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے آباؤ اجداد کی میراث کا جواب گولیوں سے دیں گے، لیبیا میں کسی بھی ترک فورس سے 'کوئی رحم نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ رحم کے لائق نہیں ہیں'۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیبیا کے لوگ ترکوں کی جانب سے کسی قبضے کو قبول نہیں کریں گے اور دوبارہ کبھی کالونی نہیں بنیں گے۔

ادھر برطانیہ کی اوکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک محقق سیمیول رامانی نے عرب نیوز کو بتایا کہ حفتر ترکی کے خلاف اپنی بیان بازی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ لیبیا میں جنگ صرف جی این اے سے منسلک عسکریت پسند یا دہشت گرد ملیشیاز کے خلاف جدوجہد نہیں ہے بلکہ لیبیا کی خودمختاری اور ترکی کے بالادست ایجنڈے سے آزادی کے لیے جدوجہد ہے۔

ادھر خلیفہ حفتر کی رجب طیب اردوان کو وارننگ نے ترکی کے وزیر دفاع اور یو اے ای کے وزیر مملک برائے امور خارجہ کے درمیان لفظی جنگ شروع کردی۔

خیال رہے کہ لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ ترکی کے اچھے تعلقات ہیں اور عسکری مدد بھی فراہم کی جارہی ہے جبکہ مصر، متحدہ عرب امارات اور روس متحارب گروپ خلیفہ حفتر کی فورسز کے ساتھ ہیں۔

حال ہی میں ترکی سے مدد کے حصول کے بعد طرابلس کی جی این اے حکومت نے ڈرامائی انداز میں کمانڈر حفتر کی فورسز کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔

یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے خلاف 2011 میں نیٹو اتحاد کی حمایت سے کارروائی شروع کی گئی تھی اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا لیکن ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں ایئر ڈیفنس نظام پر حملہ، ترکی کا 'بدلہ' لینے کا اعلان

لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں