پاکستان کو قرض کی تجدید کیلئے آئی ایم ایف کا اہم اجلاس آج ہوگا

اپ ڈیٹ 29 اگست 2022
پاکستان کی جانب سے سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیےآئی ایم ایف سے امداد کی درخواست کی جائے گی — فائل فوٹو: رائٹر
پاکستان کی جانب سے سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیےآئی ایم ایف سے امداد کی درخواست کی جائے گی — فائل فوٹو: رائٹر

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس پیر کو واشنگٹن میں ہوگا جس میں پاکستان کو قرضہ دینے پر غور کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس سے قبل پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے کم از کم 37 ارب ڈالر سرمایہ کاری اور قرض کی مد میں ملنے والے ہیں۔

اگر آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اس معاہدے کی منظوری دیتا ہے تو عالمی ادارہ پاکستان کو فوری طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا اور رواں سال کے بقیہ حصے کے دوران 4 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے قبل بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کرنے کی تجویز

آئی ایم ایف ذرائع کی جانب سے ڈان کو بتایا گیا کہ ’ممکنہ طور پر ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے آٹھویں اور نویں قسط کی تقسیم کی بھی منظوری دی جائے گی جو تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ہے، آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر ایسا نہ کرنے سے غلط پیغام جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ (آر ایف آئی) سے سیلاب زدگان کے لیے ہنگامی امداد کی درخواست کرے گا جس کے لاگت تقریباً 50 کروڑ ڈالر ہے۔

یاد رہے کہ آر ایف آئی کے تحت ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے ملک کے معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے اپریل 2020 کو پاکستان کو ایک ارب 38 لاکھ 6 ہزار ڈالر کی منظوری دی گئی تھی۔

امریکی اخبار ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق پاکستان کی جانب سے 37 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضے اور سرمایہ کاری کے معاہدے کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان، سری لنکا جیسے معاشی بحران سے محفوظ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب، قرض پروگرام بحال ہونے کا امکان

عالمی ذرائع ابلاغ ڈبلیو ایس جے اور وائس آف امریکا (وی او اے) کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ پاکستان کی درخواست پر غور کرنے کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آج (پیر) ہوگا۔

وائس آف امریکا نے رپورٹ کیا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سے قرضے، فنانسنگ، تیل کی ادائیگی اور سرمایہ کاری کے لیے تقریباً 12 ارب ڈالر کا قرضے کا وعدہ لیا گیا، لیکن قرض کی یہ رقم آئی ایم ایف بورڈ اجلاس کی جانب سے پیکج کی منظوری کے بعد ہی دستیاب ہوگی۔

وائس آف امریکا کی جانب سے بتایا گیا کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت وسیع اور گہری ہے، ملک کی جغرافیائی اہمیت ایک خاص درجہ رکھتی ہے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔

امریکا کی انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کے پروگرامز کی ڈائریکٹر تمنا سالک الدین نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ کئی اختلافات کے باوجود افغانستان جیسے معاشی بحران سے بچنے کے لیے امریکا، آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو قرض دینے کی حمایت کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور اسلامی بینکوں کا 200 ارب روپے کے سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی، جوہری سلامتی اور استحکام پاکستان میں امریکا کی مستقل دلچسپی کے اہم عوامل تصور کیے جاتے ہیں لیکن سالک الدین کا کہنا تھا کہ ملک کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پاکستان کی قیادت کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ اقتصادی پالیسیاں بنانا بڑا مسئلہ کھڑا کرسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے رپورٹ کیا گیا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا تھا کہ وہ مالی سال میں بیرونی فنڈنگ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پہلے اضافی فنڈز کا بندوبست کرے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چین کی جانب سے پاکستان کو 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ دیا گیا۔

مزید پڑھیں: گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کی رعایت آئی ایم ایف سے مشکل مذاکرات سے حاصل کی، حماد اظہر

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے 3 ارب ڈالر قرضہ دیا جائے گا جس میں تقریبا ایک ارب 2 لاکھ ڈالر تیل کی مؤخر ادائیگی کی جائے گی، ریاض پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرے گا۔

متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کے کمرشل شعبے میں اتنی ہی سرمایہ کاری کرے گا اور ڈھائی ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کر رہا ہے، گزشتہ ہفتے قطر نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کرنے کے لیے راضی ہے۔

تاہم وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں معمول سے زیادہ بارش اور سیلاب کی وجہ سے ملک کو مزید مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔

آئی ایم ایف کے ذرائع کی جانب سے ڈان کو بتایا گیا کہ پاکستان کی اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں کو چاہیے کہ وہ معیشت کے استحکام کے لیے سیاسی صورتحال کو بہتر بنائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں