بھارت میں تیار کردہ طیارہ بردار بحری جہاز ‘وکرانت’ کو پہلی بار باضابطہ طور پر بیڑے میں شامل کرے گا، یہ 17 سالوں میں تعمیر اور آزمائشں کے اختتام پر ہے، بھارت خطے کے حریف چین اور اس کے بہت بڑے بحری بیڑے سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق آئی این ایس وکرانت کے پاس لڑاکا طیاروں کا اپنا بیڑا نہیں ہوگا، بھارت کے واحد دوسرے کیریئر آئی این ایس وکرمادتیہ سے لیے گئے چند روسی ڈیزائن کردہ طیاروں پر انحصار کرے گا۔

فرانس کی ڈسالٹ اور بوئنگ بھارت کو 2درجن سے زائد جیٹ طیارے فراہم کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں، جو وکرانت کے لیے مختص کیے گئے ہیں، یہ ایک 262 میٹر لمبا بحری جہاز ہے جسے جنوبی بھارت میں سرکاری کوچین شپ یارڈ میں بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی ملائیشیا کو لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی پیشکش

رائٹرز کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کا بھارتی بحریہ اور وزارت دفاع نے جواب نہیں دیا۔

بھارتی بحریہ کی جانب سے ڈیزائن کیا جانے والا یہ کیریئر ملک میں بنایا جانے والا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے، اس میں فائٹر جیٹس، ہیلی کاپٹروں سمیت 30 طیاروں اور تقریباً ایک ہزار 600 عملے کی گنجائش ہے۔

بھارت کی وزارت دفاع کےمطابق اس بحری جہاز کی تیاری میں استعمال ہونے والے 75 فیصد سے پرزہ جات مقامی طور تیار کردہ ہیں، 6 بڑی صنعتی کمپنیاں اور 100 سے زائد چھوٹے کاروباری اداروں نے اس کی مشینری اور ایکوئپمنٹ فراہم کیے ہیں۔

وکرانت تقریباً ایک سال کے سمندری ٹرائل مکمل کرنے کے بعد جمعہ کو وزیراعظم نریندر مودی کمیشن دیں گے۔

بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش نے رائٹرز کو بتایا کہ سمندری آزمائشوں کے دوران جہاز کی کارکردگی استحکام کے لحاظ سے اچھی رہی، تاہم ہوائی جہاز کے آپریشن ابھی تک شروع نہیں ہوئے ہیں، امید ہے کہ یہ ہر طرح سے کامیابی کی کہانی ہوگی۔

دفاعی انٹیلی جنس کمپنی جینز کے بحریہ کے تجزیہ کار پرتھمیش کارلے کا کہنا تھا کہ بحریہ کی طرف سے شائع کردہ حالیہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وکرانت میں بحریہ کے ریڈار سسٹم کا بھی فقدان ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: راجستھان میں لڑاکا طیارہ ‘مگ 21’ گر کر تباہ

پرتھمیش کارلے نے رائٹرز کو بتایا کہ اس لیے وکرانت کو اپنے ہوائی جہاز کے ساتھ آپریشنل طور پر تعینات کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں