پاکستان کے بجٹ اعداد و شمار عمومی طور پر قابل بھروسہ ہیں، امریکا

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2022
پورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کا انٹیلی جنس بجٹ مناسب سویلین نگرانی کے تابع نہیں ہے—فائل فوٹو شٹراسٹاک
پورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کا انٹیلی جنس بجٹ مناسب سویلین نگرانی کے تابع نہیں ہے—فائل فوٹو شٹراسٹاک

امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے موجودہ مالیاتی بجٹ اور اس کے آڈٹ کے بارے میں ‘عام طور پر قابل اعتماد’ معلومات ظاہر کی ہیں جو ‘آزادی کے بین الاقوامی معیارات’ پر پورا اترتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ رپورٹ امریکی کانگریس کو بھیجی گئی ہے اور پالیسی سازی پر اثرانداز ہوتی ہے، تاہم پاکستان کو اب بھی ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے مالیاتی شفافیت کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی۔

رپورٹ میں پتا چلا کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے 141 ممالک کا جائزہ لیا گیا، ان میں سے 72 نے مالیاتی شفافیت کے لیے درکار کم سے کم تقاضے پورے کیے جبکہ 68 نے وہ تقاضے پورے نہیں کیے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ

تاہم ان 69 ممالک میں سے 27 نے مالیاتی شفافیت کی کم از کم ضروریات کو پورا کرنے کی طرف اہم پیش رفت کی۔

ورلڈ بینک گروپ المنائی ایسوسی ایشن کے صدر انیس دانی نے کہا کہ ‘پاکستان کے بارے میں رپورٹ خطے کے کچھ دوسرے ممالک جیسے بنگلہ دیش اور ازبکستان کے مقابلے میں نسبتاً بری نہیں ہے’۔

بنگلہ دیش سے متعلق رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ملک آڈٹ کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ (پاکستان کے) بجٹ میں معلومات کو عام طور پر قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے اور آڈٹ کا سپریم ادارہ آزادی کے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترتا ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 23-2022: مختلف ٹیکسز پر چھوٹ، نوجوانوں کے لیے خصوصی اعلانات

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کی آڈٹ رپورٹس کو ‘عوامی طور پر ایک معقول مدت کے اندر دستیاب کیا گیا اور ٹھوس نتائج فراہم کیے گئے۔’

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حکومت ‘قانون یا ضابطے پر چلتی ہے اور قدرتی وسائل نکالنے کے معاہدوں اور لائسنس دینے کے معیار اور طریقہ کار کی عملی طور پر پیروی کرتی نظر آتی ہے’ اور قدرتی وسائل نکالنے کے ٹھیکوں کے بارے میں بنیادی معلومات عوامی طور پر دستیاب ہیں’۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق نظرثانی کی مدت کے دوران پاکستانی حکومت نے اپنے بجٹ اور سال کے اختتام کی رپورٹ کو وسیع پیمانے پر اور عوام کے لیے آسانی سے قابل رسائی بنایا لیکن اس نے ‘مناسب مدت کے اندر اپنی ایگزیکٹو بجٹ تجاویز شائع نہیں کیں۔’

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 23ء-2022ء کو رابن ہڈ بجٹ کیوں کہنا چاہیے؟

تاہم رپورٹ میں شکایت کی گئی کہ حکومت نے قرضوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں محدود معلومات شائع کیں البتہ عوامی طور پر دستیاب بجٹ دستاویزات میں حکومت کے زیادہ تر منصوبہ بند اخراجات اور آمدنی بشمول قدرتی وسائل کی آمدنی کے سلسلے کی کافی حد تک مکمل تصویر فراہم کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کا انٹیلی جنس بجٹ ‘مناسب سویلین نگرانی کے تابع نہیں ہے۔’

تبصرے (0) بند ہیں