مریم نواز کی بریت، سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان گرما گرم بحث

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2022
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بریت کو ’این آر او-2‘ کا نام دیا، حکومت نے فیصلے کو پی ٹی آئی کے احتساب کے بیانیے کے منہ پر طمانچہ قرار دیا— فائل فوٹو: اے پی پی
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بریت کو ’این آر او-2‘ کا نام دیا، حکومت نے فیصلے کو پی ٹی آئی کے احتساب کے بیانیے کے منہ پر طمانچہ قرار دیا— فائل فوٹو: اے پی پی

ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کی بریت اور وزیراعظم ہاؤس سے حال ہی میں لیک ہونے والی آڈیو گفتگو کے معاملے پر سینیٹ میں اپوزیشن اور ٹریژری بنچوں کے اراکین کے درمیان شدید بحث ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بریت کو ’این آر او-2‘ قرار دیا تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی عدالت نے درجنوں سماعتوں کے بعد میرٹ پر کیس کا فیصلہ کیا اور اسے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے احتساب کے بیانیے کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی سزا کالعدم قرار دے دی

وقفہ سوالات کے فوراً بعد عوامی اہمیت کے حامل نکتے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وسیم نے مریم نواز کو معافی دیے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کیے جانے پر حکومتی بنچوں کی مذمت کی اور اسے چوری کا واضح کیس قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ نظام کی خامیاں کھل کر سامنے آ گئیں، قوم کے ساتھ انتہائی افسوسناک اور دردناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جمہوریت میں عوام کی مرضی اور آواز فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں لوگوں کو جمہوریت سے دور کر دیا گیا اور ایک ’میک بیلیو سسٹم‘ قائم کر دیا گیا، مثال کے طور پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ میں عوام کے حق میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور اپوزیشن کو بولنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی جبکہ بلوں کو ’بلڈوز‘ کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کی طرف سے چلی جانے والی ’سب سے بڑی چال‘ این آر او 2 کی شکل میں تھی، کہ ان کا من پسند قانون بنایا گیا جس کے نتیجے میں اتحادی رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کر دیے گئے، ان کے جرائم معاف ہو گئے.

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست، نیب کا مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ

شریف خاندان کی لندن میں جائیدادوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ناصرف موجود تھے بلکہ 93-1992 سے استعمال ہو رہے تھے، شریف خاندان کے متضاد بیانات کے باوجود انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم کر لی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمارتیں موجود تھیں لیکن منی ٹریل غائب تھی۔

آڈیو لیکس کے تنازع کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر نے کہا کہ بات چیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی تھی اور حکمران جماعت کے کاروباری مفادات انہیں عوام سے زیادہ عزیز ہیں۔

ڈاکٹر وسیم کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایون فیلڈ کیس کا فیصلہ چار سال کی قانونی جنگ کے بعد میرٹ پر ہوا، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ ​​حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں پھنسایا۔

انہوں نے آڈیو لیک پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کا امریکی سازشی بیانیہ بے نقاب ہونے کے بعد یہ ذہنی طور پر پریشان ہیں۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کو میڈیا سے گفتگو سے پہلے کس کا فون آیا؟

انہوں نے تجویز دی کہ ایوان میں عمران خان کی آڈیو لیک پر بحث کروائی جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کون ملک کا وفادار ہے اور کون غدار ہےِ، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر وسیم نے اعظم نذیر کی اس تجویز کو قبول کیا۔

مزید برآں، ایوان نے تین بل منظور کیے جن میں پاکستان ترمیمی بل 2022 کے قانون کی اشاعت، ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف پاکستان بل اور ڈپلومیٹک اینڈ قونصلر آفیسرز(اوتھ اینڈ فیس) ​​ترمیمی بل شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب حکومتی اراکین نے قاعدہ 218 کے تحت سابق وزیر اعظم خان اور ان کے اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر بحث کے لیے ایک قرارداد جمع کرائی۔

تحریک کے مطابق یہ ایوان سابق وزیر اعظم اور ان کے پرنسپل سیکریٹری کی سوشل میڈیا پر زیر گردش آڈیو لیکس پر بحث کر سکتا ہے، جس میں سیاسی مقاصد کے لیے خفیہ سفارتی کیبل کا غلط استعمال کیا گیا تھا، سابق وزیر اعظم نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے حقائق کو سبوتاژ اور اس کی غلط تشریح کرتے ہوئے اسے غیر ملکی سازش قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی جانب سے مریم نواز کی بریت کو فوری چیلنج نہ کرنے کا امکان

اس قرارداد پر اعظم نذیر تارڑ، عرفان صدیقی، سلیم مانڈوی والا، مولا بخش چانڈیو، بہرامند تنگی، سردار شفیق ترین، روبینہ خالد، اور حاجی ہدایت اللہ نے دستخط کیے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں