لاہور ہائی کورٹ نے مونس الہیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس خارج کر دیا

04 اکتوبر 2022
مونس الٰہی نے کہا ان کے خلاف کیس بد نیتی کا نتیجہ تھا—فائل فوٹو:رانا بلال
مونس الٰہی نے کہا ان کے خلاف کیس بد نیتی کا نتیجہ تھا—فائل فوٹو:رانا بلال

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر چوہدری مونس الٰہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دائر کردہ منی لانڈرنگ کیس کالعدم قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل، ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے ٹرائل کورٹ میں ہزاروں صفحات پر مشتمل اپنا چالان (تحقیقاتی رپورٹ) جمع کرایا۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے اپنے دلائل کی تائید کے لیے مختلف عدالتوں کے 14 فیصلوں کا حوالہ دیا ہے جب کہ انہیں چالان سے متعلق پہلے ہین میڈیا کے ذریعے علم ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: مونس الہٰی و دیگر کے خلاف چالان عدالت میں جمع

جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ڈپٹی لا افسر سے استفسار کیا کہ کیا متعلقہ بینک کی جانب سے شکایت درج کرائے بغیر ہی بینکنگ جرم سے متعلق مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے؟

جس پر لا افسر نے کہا کہ بینک جو کہ خود اس غیر قانونی اقدام کا مجرم ہے وہ شکایت کیسے درج کرائے گا۔

عدالت کی جانب سے پوچھے گئے ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر درخواست گزار کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: مونس الہیٰ کی 4 جولائی تک عبوری ضمانت منظور

جج نے لا افسر سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی کے منحرف رہنما جہانگیر خان ترین کے خلاف بھی شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کیس بنایا گیا؟

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جہانگیر ترین کے خلاف اس کیس میں اپنا چالان جمع نہیں کرایا جب یہ یہ کیس مونس الٰہی کے مقدمے سے پہلے درج کیا گیا تھا۔

لا افسر نے کہا کہ ایف آئی اے مقدمات سے متعلق اپنے ایکشن میٹرکس پر عمل کر رہا ہے، انہوں نے سنگل بینچ کے سامنے پٹیشن کی سماعت سے متعلق بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ مونس الٰہی کی ضمانت قبل از گرفتاری کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست 4 اکتوبر بروز منگل (آج) روز سماعت کے لیے مقرر ہے۔

تاہم جج نے درخواست کی سماعت کے لیے سنگل بینچ کے دائرہ اختیار پر اعتراض کو مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: مونس الہٰی نے منی لانڈرنگ کیس میں مبینہ فرنٹ مین سے تعلق کی تردید کردی

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ درخواست گزار نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رحیم یار شوگر ملز کی خرید و فروخت کی اور حتمی طور پر شیئرز مونس الٰہی کی اہلیہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے نام منتقل کیے گئے۔

تاہم تفتیشی افسر عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا کہ اگر درخواست گزار سے بینکنگ جرم کیا تو قومی خزانے کو کیا نقصان پہنچا۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا جس کے مطابق درخواست گزار کے کیس خارج کردیا گیا۔

مونس الٰہی نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف غیر قانونی کیس ہے اور ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی کارروائی بد نیتی کا نتیجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مونس الہٰی نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دے دیا

انہوں نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت کے خلاف ان کی آواز کو دبانے کے لیے، انہیں اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے لیے غیر قانونی کارروائی شروع کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں سے کوئی بھی سرکاری ملازم نہیں تھا، شوگر کمیشن کی انکوائری کے سلسلے میں انہیں کوئی سمن یا نوٹس جاری کیے بغیر ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس سے بددیانتی اور قوانین کی خلاف ورزی واضح نظر آتی ہے۔

خصوصی عدالت نے اس کیس میں پنجاب اسمبلی کے اس وقت کے سیکریٹری محمد خان بھٹی اور واجد بھٹی سمیت مونس الٰہی اور دیگر ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی توثیق کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں