جزلان فیصل کا قتل دہشت گردی نہیں ہے، عدالت

12 اکتوبر 2022
استغاثہ کے مطابق حسنین کا جزلان سے مبینہ طور پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے روکنے پر جھگڑا ہوا تھا —فائل فوٹو:ڈان
استغاثہ کے مطابق حسنین کا جزلان سے مبینہ طور پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے روکنے پر جھگڑا ہوا تھا —فائل فوٹو:ڈان

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جزلان قتل کیس کے تفتیشی افسر کو سیشن عدالت میں حتمی چارج شیٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان طالبعلم کا قتل دہشت گردی نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے یہ حکم مشتبہ افراد میں سے ایک کے وکیل کی جانب سے دائر درخواست پر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جزلان قتل کیس، ایک اور ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

محمد فیض، ان کے بیٹے حسنین، عرفان، احسن اور ان کے دوست انشال کے خلاف بحریہ ٹاؤن کراچی میں معمولی جھگڑے پر جزلان کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

حسنین کے وکیل مشتاق احمد نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 23 (مقدمات کو باقاعدہ عدالتوں میں منتقل کرنے کا اختیار) کے تحت ایک درخواست دائر کی تھی جس میں دلیل دی گئی ہے کہ یہ مقدمہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے دائرے میں نہیں آتا۔

انہوں نے دلیل دی کہ عدالت کے پاس چارج شیٹ قبول کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے کیونکہ واقعے میں دہشت گردی کا کوئی عنصر نہیں ہے۔

انہوں نے جرم کی نوعیت کا تعین کرنے اور ٹرائل کے لیے متعلقہ عدالت کے سامنے اسے جمع کرانے کی ہدایت کے ساتھ چارج شیٹ تفتیشی افسر کو واپس کرنے کی استدعا کی۔

مزید پڑھیں: کراچی: جزلان قتل کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل

ایڈووکیٹ مشتاق احمد کو بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے چارج شیٹ تفتیشی افسر کو واپس کر دی ہے اور اسے متعلقہ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

استغاثہ کے مطابق حسنین کا جزلان سے مبینہ طور پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے روکنے پر جھگڑا ہوا تھا جس پر اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر جزلان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور بحریہ ٹاؤن میں واقع ’ایفل ٹاور‘ کےقریب اس پر فائرنگ کردی۔

مقتول جزلان فیصل کے چچا عارف صابر کی شکایت پر تھانہ سٹی پولیس گڈاپ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) 324 (اقدام قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) 109 ( جرم میں معاونت کی سزا) اور 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں